تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
آئے، لیکن بعض حالات ایسے پیش آئے کہ انھوں نے نوکری کرلی پھر جب سید وشریف حاضری ہوئی تو اخوند صاحب نے آپ کو دیکھ کر فرمایا کہ جا تو ہمارے کام کا نہ رہا، آپ پندرہ روز تک وہاں روتے رہے، اخوند صاحب نے بلاکر دوبارہ اسی شرط پر بیعت لی، اور وہیں کے ہورہے، وہاں سید و شریف میں ایک غار میں معمولات پورے کرتے تھے، ایک روز اس غار کے اوپر ایک چٹان پر شیر ببر آکر بولنے لگا، اس کی آواز سے پہاڑ کی چوٹی سے پتھر گرنے لگے، فرماتے تھے، ذرا سکون میں فرق آیا، پھر اپنا ذکر اسی قوت سے شروع کردیا۔ بڑے قوی النسبت اور صاحب کشف و تصرف بزرگ تھے، اخیر عمر میں اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا، اس کے باوجود روزانہ سو رکعتیں نفل پڑھا کرتے تھے، خادم کھڑا کردیتے تھے، آپ نفل پڑہنے لگتے، اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی، کشف کا یہ حال تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی شہرت اور دعوے سے بہت دن پہلے حکیم نورالدین صاحب مہاراجہ جموں کی صحت کے لئے دعا کرانے کے لئے آتے تھے، فرمایا تمہارا نام نورالدین ہے؟ حکیم صاحب نے کہا ہاں ! فرمایا علاقۂ قادیان میں ایک غلام احمد پیدا ہوا ہے، جو کچھ عرصے کے بعد ایسے دعوے کرے گا، جو نہ اٹھائے جائیں گے، نہ رکھے جائیں گے، تم اس کے مصاحب لکھے ہوئے ہو، حکیم صاحب نے استعجاب کا اظہار کیا، تو فرمایا تم میں الجھنے کی عادت ہے اور مناظرہ کا شوق ہے، یہی عادت تم کو وہاں لے جائے گی۔ باوجود کشف و کرامت و علوِ مرتبت کے مزاج میں بہت تواضع و مسکنت تھی، فرماتے تھے جب میں بازار سے گزرتا ہوں اور لوگ سلام کرتے ہیں تو گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے، ندامت میں ڈوب جاتا ہوں ۔ انتقال بھی عجیب طریقے سے ہوا۔ ایک دن گھر سے خوش دامن صاحبہ نے آواز دی کہ میاں صاحب رقیہ (چھوٹی بچی) روٹھی ہوئی ہے، اسکو مناؤ، فرمایا کیسی رقیہ؟ اور کس کی رقیہ؟ ہم نے اپنے روٹھے کو منالیا، یہ کہہ کر ایک مرتبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہا، کروٹ لی اور سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔