تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کے وجود باجود سے چند سالوں پہلے ہمارا ملک روشن و تابناک تھا، جن کے علم و فضل، جن کے مجاہدۂ و ریاضت، جن کے مسلسل اسفار، جن کی دین اور علم دین کے لئے تڑپ، جن کے جذبۂ اصلاح، جن کی شفقت و عنایت اور جن کی محبوبیت و مقبولیت کی دھوم ملک میں اس سرے سے اس سرے تک مچی ہوئی تھی جن کے قدم جدھر اٹھ جاتے تھے، ایمان کی باد بہاری چل پڑتی تھی۔ حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی اس دور اخیر میں اﷲ کی حجت بالغہ تھے، حضرت مولانا بھی مظاہر علوم کے فیض یافتہ ہیں ان کا ذکر آگیا، تو روح کو بھی اور قلم کو بھی وجد آگیا، ایسا ایک آدمی بھی اگر کسی ادارے سے نکل آئے تو وہ ادارہ کامیاب ہے، چہ جائیکہ اس ادارے سے بہت سے افراد تیار ہوکر نکلے ہوں ۔ حضرت باندوی کی وفات کے بعد خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا، قلم کا تقاضا ہے کہ اس کے ابتدائی پیراگراف کو نقل کردوں ۔ بات ذرا طویل ہے، لیکن کیا کروں کہ یہ داستاں طویل ہی اچھی اور لذیذ معلوم ہوتی ہے اگر کسی صاحب کو گرانی ہو،تو معاف کریں ۔ ؎ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را من از ذوق حضوری طول د ادم داستانے را ایک حرف میں ساری دنیا کی تمنا بیان کی جاسکتی ہے، مگر میں نے ذوق حضوری میں سرشار ہوکر داستان لمبی کردی ہے، بہر حال وہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’’اگر آج کسی سے پوچھا جائے کہ تم نے جنید و شبلی کو دیکھا ہے؟ با یزید بسطامی و ابو الحسن خرقانی سے ملاقات کی ہے؟ شیخ عبد القادر جیلانی و خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کی ہے؟ خواجہ نظام الدین اولیاء اور خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی سے ملے ہو؟ میاں جی نور محمد اور حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے ہو؟ تو اس کا جواب یقینا یہی ہوگا کہ نہیں !