تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
پھر اس سے پوچھئے کہ تم نے باندہ والے حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب کو دیکھا ہے؟ اگر وہ کہے کہ ہاں انھیں دیکھا ہے، انھیں سنا ہے، ان سے مصافحہ کیا ہے، ان کا مہمان رہا ہوں ، اگر وہ یہ کہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے پچھلے بزرگوں کا جلوہ دیکھا ہے۔ جنید و شبلی کا علم و عرفان، بایزید بسطامی، ابوالحسن خرقانی کے مجاہدات و ریاضات، شیخ عبد القادر جیلانی و خواجہ معین الدین چشتی کا فیضان عام، خواجہ نظام الدین و خواجہ نصیر الدین کی محبوبیت و اتباع سنت، میاں جی نور محمد و حاجی امداد اﷲ کی روحانیت، سب کا نمونہ تم نے دیکھ لیا ہے۔ حضرت مولانا صدیق احمد صاحب اس دور ظلمت میں ایک ماہتاب ہدایت تھے، اﷲ کی قدرت کاملہ کی حجت بالغہ تھے، اسلام کی حقانیت کی دلیل و برہان تھے، وہ اس بات کے نشان تھے کہ آدمی خواہ کتنا ہی بے نوا ہو، ظاہری وسائل سے تہی دامن ہو، دور افتادہ و گمنام علاقہ میں ہو، جہل و ضلالت کے ماحول میں ہو، لیکن اگر اس کے پاس ایمان کی طاقت، توکل کا سرمایہ، یقین کی پختگی، محبت کی سرشاری اﷲ کے لئے اخلاص سے سنت پر عمل اور دین کا سچا درد ہو، تو بے نوائی کی تہوں سے اس کے لئے بال و پر پیدا ہوں گے، اسباب و وسائل سے تہی دامنی کا میابی کا زینہ بن جائے گی، علاقہ کی گم نامی اس کی شہرت و مقبولیت کا دروازہ ثابت ہوگی، جہل و ضلالت کی چٹانوں سے علم و معرفت کے سرچشمے ابل پڑیں گے۔ حضرت ناظم صاحب کی زبردست روحانیت ظاہری طاقت بھی بن کر ظاہر ہوتی۔ ۱۳۸۸ھ میں جب یہ خاکسار دارالعلوم دیوبند تعلیم کے لئے حاضر ہوا تھا، تو ایک جمعہ کو سہارنپور حاضری ہوئی، جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کیلئے پہونچا تو دیکھا کہ ایک نحیف و نزار اور ضعیف و لاغر بزرگ جو نور کے پیکر محسوس ہورہے تھے جن کے صرف چہرے سے نہیں پورے وجود سے روشنی کی شعاعیں نکل رہی تھیں ، لوگ انھیں تھامے لئے آرہے تھے، خود سے چلنے