دوسرے نمبر پر کمائے گئے مالوں کا ذکر ہے، مالوں کے ساتھ کمانے کی قید میں ایک حکمت ہے، وہ یہ کہ محنت وکمائی سے میسر شدہ مال دلوں کو زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس کی زیادہ اہمیت وقدر ہوتی ہے، جب کہ بے محنت حاصل شدہ مال (مثلاً میراث، وصیت اور ہدیہ وتحفہ وغیرہ کا مال) کی نہ تو اتنی محبت وعزت ہوتی ہے اور نہ اس کی حفاظت اور نگہداشت کا اتنا اہتمام والتزام ہوتا ہے۔
تیسرے نمبر پر تجارت کا ذکر ہے، تجارت کے ساتھ کساد بازاری کے خدشہ واندیشہ کی قید بتاتی ہے کہ کامیاب، نفع رساں اور چلتی ہوئی تجارت مراد ہے؛ کیوں کہ اسی کے سرد اور ختم ہونے کا اندیشہ دل کو ستاتا اور گھبراہٹ میں ڈالتا ہے، اور اسی کی کساد بازاری کے خطرات ہوتے ہیں ، جن سے بچاؤ کے لئے آدمی پوری کدوکاوش کرتا ہے اور اتنی اہمیت اسے دیتا ہے کہ بسا اوقات ضروریاتِ دین اس کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہیں ، اللہ ورسول کی محبت پر اسے غلبہ مل جاتا ہے، اور یہی سنگین خطرہ کا الارم ہوتا ہے۔
چوتھے نمبر پر رہائشی مکانات (وطن) کا ذکر ہے، وطن ومکان کی محبت سابقہ تینوں کی محبت سے کم ہوتی ہے، اس کی وجہ علامہ ابن القیم جوزیؒ کے بقول یہ ہے کہ:
’’وطن کا متبادل موجود ہوتا ہے کہ آدمی دوسرا وطن بنالے، دوسری جگہ رہنے لگے؛ بلکہ کبھی دوسری جگہ زیادہ طبیعت لگتی ہے، جب کہ اولاد ووالدین واقارب کا کوئی متبادل نہیں ہوتا، اصل ترتیب یہی ہے کہ سب سے زیادہ محبت اقارب سے، پھر مال، پھر تجارت، پھر وطن سے ہوتی ہے، اسی کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے۔ اگر کسی فرد کی عملی زندگی میں یہ ترتیب کچھ بدلی ہوئی ہو تو وہ ایک عارضی اور نادر الوقوع حالت ہے، جس سے اصل ترتیب پر کوئی حرف نہیں آتا‘‘۔ (بدائع التفسیر: امام ابن القیم جوزیؒ ۲؍۳۵۱، التفسیر الکبیر للرازی: ۸؍۱۶- ۱۷، البحر المحیط: ابوحیان اندلسی ۵؍۳۹۱)
یہاں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اعزہ واقارب کا ذکر آیت میں مال سے پہلے آیا ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ آخر میں جہاد کا ذکر ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اگر مذکورہ اشیاء جہاد سے زیادہ پیاری ہیں ، تو یہ مستحق وعید بات ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ اہل وعیال اور خاندان سے جدائی کا تصور