داخلہ کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، صبر کو ذریعۂ مغفرت اور باعث نجات بتایا گیا ہے، صبر کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ:
وما اعطی احد عطاء خیراً واوسع من الصبر۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع تر عطا نہیں بخشی گئی۔
یعنی صبر کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ تمام محاسن اور خوبیوں کو جامع ہے، زندگی کے اعلیٰ اقدار کا حصول صبر ہی کا رہین منت ہوتا ہے، صبر ہی ہمہ نوعی تنگیوں کو دور اور ذہن وفکر اور سعی وعمل کو وسیع کرتا ہے۔ ایک حدیث میں صبر کو روشنی قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم شریف) صبر ایمانی اعلیٰ اخلاق کا اہم ترین شعبہ ہے اور عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ ایمان کے چار ستون ہیں : (۱) جہاد (۲) یقین (۳) صبر (۴) عدل۔ اور صبر کو وہ مقام حاصل ہے جو جسم میں سر کو حاصل ہے، جس کے پاس سر نہ ہو اس کا جسم بے کار ہے، ایسے ہی جس میں صبر نہ ہو اس کا ایمان بے کار ہے۔ (احیاء العلوم) صبر کی اسی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی پوشاک اور لباس قرار دیا ہے۔
ـ(۱۰) رضا میرا مالِ غنیمت ہے
اللہ کی رضا جوئی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مالِ غنیمت قرار دیا ہے، جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر تمام عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کا حصول ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہد اسی کو قرار دیا جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے لڑے، مال ودولت کے حصول کے لئے لڑائی جہاد نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یقین اپنے اصحاب کے دلوں میں پیوست اور راسخ فرمادیا تھا کہ:
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
مختلف اعمال وعبادات کے ذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کا لفظ استعمال فرمایا