لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: تم میں سے کوئی آدمی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب اور پیارا نہ ہوجاؤں ۔
ہجرت مدینہ کے حکم کے بعد بعض مسلمانوں نے ہجرت میں تھوڑی سی کوتاہی کی اور ان کی زبان پر یہ بات آگئی کہ:
ان نحن ہاجرنا ضاعت اموالنا وذہبت تجاراتنا وانقطعت ارحامنا۔
ترجمہ: اگر ہم ہجرت کریں گے تو ہمارے مال ضائع ہوجائیں گے، اور کاروبار مندے ہوجائیں گے، اور رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے، اور ختم ہوجائیں گے۔
اس موقع پر قرآن کی مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں بڑی وضاحت سے یہ فرمادیا گیا کہ حب ایمانی اور حب غیر ایمانی میں مقابلہ کے وقت حب ایمانی کو ترجیح دینا ہی ایمان کی علامت اور مقتضا ہے، اور اگر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں دوسری محبتیں غالب آرہی ہیں ، تو عذابِ الٰہی کا انتظار کیا جائے، اور آخر میں یہ بھی فرمادیا گیا کہ اللہ ورسول اور جہاد کی محبت سے محرومی اللہ کی ہدایت اور رہنمائی سے محرومی ہے۔
دنیا کے وہ مرغوبات جو عام طور پر حب خدا ورسول سے متصادم ہوتے ہیں ، ان کو قرآن کی اس آیت میں نام بہ نام ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس فہرست میں بے حد لطیف ودقیق نفسیاتی ترتیب بھی ملحوظ رکھی گئی ہے، سب سے پہلے اعزہ واقارب کا ذکر ہے، جن کو اولاً چار قسموں میں بانٹا گیا ہے: باپ کا ذکر ہے جس میں والدین کے علاوہ تمام آباء واجداد (اصول) آجاتے ہیں ، پھر بیٹوں کا ذکر ہے جس میں تمام اولاد (فروع) شامل ہیں ، پھر بھائیوں پھر بیویوں کا ذکر ہے، ان چار خاص اعزہ کے ذکر کے بعد ’’خاندان‘‘ کا عمومی تذکرہ آیا ہے، جو سب متعلقین کا احاطہ کرتا ہے۔