انسانی جمود وتعطل اور انحطاط وزوال اور ضعف واضمحلال کی شکار ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے کہ یہ شوق وعشق دعوتِ دین کی مقبولیت اور اثر آفرینی کے لئے بنیادی عنصر کا درجہ رکھتا ہے، اس لئے اسے اختیار کیا جائے۔
(۵) ذکر اللہ میرا مونس ہے
واقعہ یہ ہے کہ ذکر الٰہی عبد ومعبود کے رشتہ کے استحکام ودوام کا سب سے قوی ذریعہ ہے، ذکر کے مفہوم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے اللہ کا استحضار ہو، اور اس میں ہر وہ کام داخل ہے جو غفلت سے آزاد ہوکر کیا جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ہر گوشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی واضح دلیل ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور ہر عمل میں اللہ کی رحمت وجلال کا ہر آن استحضار اور ذکر کے ذریعہ ہر دم اللہ سے ربط وتعلق بہت ہی روشن پہلو ہے، اسی لئے آپ نے ذکر الٰہی کو اپنا انیس اور بے پایاں مرغوب ومحبوب عمل قرار دیا ہے، جو آپ کے لئے باعث اطمینانِ قلب عمل تھا، اہل ایمان کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اطمینان وسکینت حاصل کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا گیا:
الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔ (الرعد: ۲۸)
ترجمہ: سنو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذکر اللہ کے قربِ خاص کا اہم ترین وسیلہ ہے اور امت کے جن بے شمار بندوں کو قربِ خداوندی کی دولت بیش بہا میسر آئی ہے ان کی زندگیوں میں ذکر الٰہی کا پہلو بے حد نمایاں ہے۔
قرآنِ کریم کی مختلف آیات میں مؤمنوں کو بڑی تاکید کے ساتھ ذکر کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا: