آوازی ممنوع ہے، احترام ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں بھی قابل احترام ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بآواز بلند باہم مباحثہ کرنے والے دو آدمیوں پر سخت نکیر اسی لئے فرمائی تھی، اور ان کو سختی سے منع کیا تھا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ۴؍۲۲۲)
آیت مذکورہ کی اصل روح وپیغام بیان کرتے ہوئے مولاناامین احسن اصلاحی نے تحریر کیا ہے کہ:
’’آواز بلند کرنے کا ذکر انسان کے باطن کے ایک مخبر کی حیثیت سے ہوا ہے، جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اونچا خیال کرتا ہے، یہ چیز اکتسابِ فیض کی راہ بالکل بند کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہوجائے گا؛ اس لئے کہ رسول، اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔
(تدبر قرآن، مولانا امین اصلاحی ۷؍۴۸۹-۴۹۰)
(۴) سرگوشیوں کے ذریعہ پریشان کرنے سے ممانعت
فرمانِ خداوندی ہے:
یایہا الذین اٰمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقۃ، ذٰلک خیر لکم واطہر، فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم۔
(المجادلۃ: ۱۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کرو اور تخلیہ میں بات کرو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دو، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے؛ البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ، تو اللہ غفور رحیم ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادے کے لئے اہل اسلام ہمہ وقت خواہاں رہتے تھے، عام مجالس کے علاوہ بہت سے لوگ خفیہ طور پر علیحدگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو