فاذکرونی اذکرکم۔ (البقرۃ: ۱۵۲)
ترجمہ: میرے بندو! تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد رکھوں گا۔
قرآن وحدیث کے نصوص یہ واضح کرتے ہیں کہ ذکر اللہ تمام اعمالِ صالحہ کی روح ہے، دلوں کی دنیا اسی سے آباد رہتی ہے، قلبی بیماریوں کے لئے وہی دوا اور شفا ہے، وہی عبد ومعبود کے مابین وسیلۂ ربط ہے، ذکر میں مشغول افراد کو ملائکۂ رحمت گھیر لیتے ہیں ، ان پررحمت خداوندی چھا جاتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ اپنے مقرب فرشتوں میں ان کا تذکرہ کرتا ہے، انہیں اللہ کی معیت وقبولیت کی نعمت ملتی ہے، ذکر الٰہی دلوں کو صیقل کرتا ہے، وہ عذابِ الٰہی سے نجات کا بہت مؤثر ذریعہ ہے، جب کہ ذکر سے محرومی کا انجام حسرت وحرماں نصیبی اور دلوں کی قساوت وشقاوت ہے۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر الٰہی کو اپنی بے انتہا محبوب چیز قرار دیا ہے، اور ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکرکی جو تاکید فرمائی، اس کے جو فضائل ومنافع بیان فرمائے، اس کے جن اسرار وحکم کی نقاب کشائی فرمائی، اس کے بعد ذکر محض ایک فریضہ اور ضابطہ نہیں رہ جاتا؛ بلکہ وہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت، فطرتِ انسانی کا ایک خاصہ، روح کی غذا اور دل کی دوا بن جاتا ہے، پھر اس کے لئے الہام خداوندی سے جو اوقات ومواقع، جواسباب ومحرکات تجویز فرمائے، اور ان کے لئے جو صیغے اور الفاظ تعلیم فرمائے، وہ توحید کی تکمیل کرنے والے، عبدیت کے قالب میں روح ڈالنے والے، قلب کو نور سے، زندگی کو سکینت وسرور سے اور فضا کو برکت ونورانیت سے بھرپور کرنے والے ہیں ، پھر وہ اسی قدر عمومی، پوری زندگی کی وسعت وتنوعات اور شب وروز کے اوقات پر محیط ہیں کہ اگر ان کا ذرا بھی اہتمام کیا جائے تو پوری زندگی ایک مسلسل ومکمل ذکر میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور مشکل سے کوئی وقت، کوئی کام، کوئی نقل وحرکت اور کوئی پیش آنے والی حالت وتبدیلی اس کی رفاقت وشمولیت سے محروم رہتی ہے‘‘۔ (ماخوذ از: مقدمہ معارف الحدیث، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۵؍۶-۷)
(۶) اعتماد میرا خزانہ ہے
اعتماد کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں : (۱) خداوند قدوس پر اعتماد (ـ۲) اپنی ذات پر اعتماد