آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو دریافت کیا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلہ کروگے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کتاب اللہ کے مطابق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر کتاب اللہ میں وہ حکم نہ ملے تو کس طرف رجوع کروگے؟ انہوں نے کہا کہ سنت رسول اللہ کی طرف، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ حکم سنت میں بھی نہ ملے تو کیا کروگے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پھر میں اجتہاد کروں گا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو اس طریقہ کی توفیق عطا کی جو اس کے رسول کو محبوب ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الاقضیۃ)
اس واقعہ سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی کامل پیروی اور کتاب وسنت کی طرف اولین رجوع وتقدیم کے عزم کا علم ہورہا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنا نام اپنے رسول کی تعظیم وتکریم کے لئے ذکر فرمایا ہے، اور یہ اشارہ کردیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل سے پیش قدمی کرنا اللہ کی بے ادبی ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل عین امر الٰہی ہے۔
بہرحال احترام وتعظیم کا واجبی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی نہ کی جائے، بندہ کی سعادت وفلاح کا دار ومدار اسی ادب واطاعت پر ہے۔
(۳) بلند آواز میں بولنے سے ممانعت
ارشاد ربانی ہے:
یایہا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجہروا لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون۔ (الحجرات: ۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،