اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معارف وحقائق کی طرف سے اندھے بہرے نہیں ہوجاتے؛ بلکہ عقل وفہم کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے اور تعمیل حکم میں لگ جاتے ہیں ، انہیں بہ گوشِ قبول سنتے اور بہ چشم عبرت دیکھتے ہیں ۔ (تفسیر ماجدی ۳؍۵۲۵)
اہل ایمان اللہ کی آیات اور احکام کی طرف اندھوں اور بہروں کی طرح نہیں ؛ بلکہ دانا وبینا وشنوا انسان کی طرح متوجہ ہوتے، غور کرتے اور عمل کرتے ہیں ، اللہ نے عقل کو علم کا اہم ترین ذریعہ بنایا ہے، حواسِ خمسہ کی پرواز جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے عقل کا دائرۂ کار شروع ہوتا ہے؛ لیکن اللہ نے عقل کا دائرہ غیر محدود نہیں ؛ بلکہ محدود ہی رکھا ہے، اس کا دائرہ متعین ہے، دائرہ سے باہر عقل صحیح رہنما نہیں ہوتی؛ بلکہ گمراہی میں لے جاتی ہے، عقل کی پرواز جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے وحی الٰہی کا دائرہ شروع ہوتا ہے، دائرہ میں عقل کا استعمال شرع کا مطلوب ہے، عقل کا بالکل استعمال نہ کرنا یا دائرہ سے باہر استعمال کرنا افراط وتفریط میں داخل ہے، جو قابل مذمت امر ہے۔ عقل کو سلیم اسی وقت قرار دیا جائے گا جب وہ اعتدال سے آراستہ اور افراط وتفریط سے دور ہو، شریعت میں یہی عقل مطلوب ومحمود اور اصل وبنیاد قرار دی گئی ہے۔
(۳) محبت میری زندگی کی بنیاد ہے
اللہ کی محبت اور اللہ کی خاطر اور اس کی رضا جوئی کے لئے ا س کے بندوں سے محبت ایمان کا اہم ترین حصہ ہے، نوع انسانی سے مواسات وہمدردی کا معاملہ، عدل واحسان اور اس کی خاطر ایثار وقربانی اور اپنوں وبیگانوں سب کے ساتھ رحمت کا معاملہ ایمان کا اہم مطالبہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا ہے؛ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات اس پوری کائنات کے لئے سراسر رحمت تھی۔
تقویٰ اور خوفِ خدا فی الواقع محبت کا نتیجہ ہوتا ہے، اللہ سے محبتِ خاطر اور اس کی خوشنودی کے حصول کی غرض سے انسان راہِ تقویٰ پر گامزن ہوتا ہے، دوسری طرف اپنی ذات اور اپنے اہل