ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم (اسباب، نتائج وپیغام)
ہجرت نبوی کا واقعہ بلاشبہ تاریخ کا محیر العقول اور اہم ترین واقعہ ہے، جس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اسلام صورت وخیال کا نہیں ، حقیقت وواقعہ کا نام ہے، اور جن کے دل حقیقت اسلام سے منور ومعمور ہوتے ہیں وہ دنیا کی ہر خرافات اور غلط روی کا مقابلہ کرتے اور انجام کار فتح مند وغالب رہتے ہیں ۔ دوسری طرف جن کے سینے اس حقیقت سے تاباں نہیں ہوتے وہ کبھی بامراد نہیں ہوتے،ان کی نفسانی خواہشات ان پر حاوی رہتی ہیں ، آزمائشوں میں وہ جادۂ مستقیم پر ثابت قدم نہیں رہتے، اور ان کے قدم ہر وقت لغزش کھاتے ہی رہتے ہیں ۔
اللہ کے مخلص انصار ومہاجر بندے جن کے سینوں میں حقیقت اسلام کا نور روشن تھا، اسی لئے اللہ کے محبوب ومقرب قرار پائے، اللہ نے ان میں محبت ڈال دی، اور ان کے درمیان اخوت ومودت کا بے حد مستحکم اور اٹوٹ تعلق قائم کردیا، ساتھ ہی اللہ نے ان مخلصین کا ناطہ ان بدنصیبوں سے منقطع کردیا جو قدرت ووسعت کے باوجود ہجرت کی سعادت سے محروم رہے اور جن کو حقیقتِ اسلام کا کوئی ذرہ بھی میسر نہیں آسکا۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ:
ان الذین اٰمنوا وہاجروا وجاہدوا باموالہم وانفسہم فی سبیل اللّٰہ والذین اٰووا ونصروا اولٰئک بعضہم اولیاء بعض، والذین اٰمنوا ولم یہاجروا ما لکم من ولایتہم من شیئ حتی یہاجرو۔ (الانفال: ۷۲)
ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں ، رہے وہ لوگ جو ایمان لے