چناں چہ انہوں نے اعلان کردیا کہ مجھے اپنی جان کی قربانی گوارا ہے مگر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم گوارا نہیں ، برہمن کو قتل کیا گیا، اور پھر شیخ عبد النبی کو بھی عقیدت کا خراج اس طرح ادا کرنا پڑا کہ انہیں شہید کردیا گیا اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے جان دے دی کہ ؎
ع: اِک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
(رود کوثر: شیخ محمد اکرام ۱۰۱)
گستاخِ رسول رضی اللہ عنہ کی سزا
عہد رسالت کا مشہو مجرم گستاخ رسول عبد العزیٰ بن خطل تھا، اس نے دو لونڈیاں آپ کی ہجو کے اشعار گانے کے لئے متعین کر رکھی تھیں ، فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائگاں قرار دیا، اور حکم دیا کہ اگر وہ کعبے کے پردے کے نیچے بھی پایا جائے تو اسے قتل کردیا جائے، چناں چہ اسے قتل کردیا گیا، اس کی ایک لونڈی بھی قتل کی گئی، اور ایک نے اسلام قبول کرکے نجات حاصل کرلی۔ (الرحیق المختوم ۶۳۵-۶۳۶)
گستاخوں کی تذلیل کا قرآنی اعلان
قرآنِ کریم بڑی وضاحت کے ساتھ کہتا ہے:
ان الذین یحادون اللّٰہ ورسولہ اولٰئک فی الاذلین، کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی، ان اللّٰہ قوی عزیز۔ (المجادلۃ: ۲۰-۲۱)
بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین مخلوقات میں سے ہیں ۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور غالب ہے۔
واضح کردیا گیا کہ مخالف گستاخ کا مقدر ذلت ورسوائی ہے، اور غلبہ خواہ سیاسی ہو یا اخلاقی، اللہ ورسول اور اہل ایمان کا مقدر ہے۔