مدینہ منورہ پہنچے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو غایت مسرت سے انہوں نے حضرت عبد اللہ کی پیشانی چوم لی، واقعہ یہ ہے کہ:
ع: جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں
(اسد الغابہ سوم)
حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی رضی اللہ عنہ کا کردار
غزوۂ مریسیع کے موقع پر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کی شان میں گستاخی کی، انہیں ذلیل قرار دیا، انہیں مدینہ منورہ سے نکالنے کی منصوبہ سازی کی، اس نے اپنے ساتھیوں اور مدینہ منورہ کے باشندوں سے کہا کہ تم نے ان مسلمانوں کو کھلا پلاکر موٹا کیا ہے، اب یہ تم ہی کو آنکھ دکھارہے ہیں ، ان کی مثال تو اس کتے جیسی ہے جسے کوئی کھلاپلا کر موٹا کردے اور پھر کتا اسی پر حملہ آور ہوجائے۔ قرآنِ کریم ذکر کرتا ہے:
یقولون لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منہا الاذل، وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون۔ (المنافقون: ۸)
ترجمہ: منافق کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سے نکال باہر کرے گا، حالاں کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور اہل مدینہ کے لئے ہے،مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں ۔
عبد اللہ بن ابی کی اس حرکت کا علم ہوتے ہی حضرت عمر جوش میں آگئے، خود عبد اللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبد اللہ جو مخلص مسلمان تھے، آئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا حکم ہو تو اپنے گستاخ باپ کی گردن پیش کردوں ، سفر سے واپسی پر حضرت عبد اللہ مدینہ منورہ آنے سے قبل ہی تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ منورہ پہنچ کر عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ ورسول کی، خدا کی قسم آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں ، پھر جب تک آپ صلی اللہ