پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا یہ جذباتی تعلق اوران کی اہانت پر ہمارا یہ اضطراب بے حد مبارک ہے، مگر اسلام ہم سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ پیغمبر اور قرآنِ کریم سے جذباتی تعلق کی طرح ہی ان سے ہمارا عملی تعلق بھی اتنا ہی ضروری ہے، مقام افسوس ہے کہ ہمارے جذباتی تعلق کی گواہ پوری دنیا بنے اور ہمارے عملی تعلق کا عالم یہ ہو کہ:
ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
آج ملت کی داخلی اور معاشرتی صورتِ حال یہ ہے کہ بداخلاقی، بے راہ روی، دین سے دوری اور رسوم وخرافات کی اندھی تقلید کا ایک طوفان آیا ہوا ہے، مغربی تعلیم وتہذیب کی ترویج کی لعنت یہ ہے کہ عقائد پر زد پڑرہی ہے، بے عملی کی فضا عام ہے، معاملات میں اسلامی اصول اور اجتماعی اقدار کو پامال کرکے صرف حصول زر کو مطمح نظر بنالیا گیا ہے، حلال وحرام کی تمیز اٹھ گئی ہے، سماجی زندگی، خاندانی، قومی، غیر اسلامی رسوم اور خرافات کی نذر ہوگئی ہے، حسن اخلاق کے جوہر گراں مایہ سے ہم تہی دامن ہوتے جارہے ہیں ۔
اپنی عملی زندگی میں قرآن کریم وسنت رسول سے اس انحراف کا بدل کیا ہمارا جذباتی احتجاج ہوسکتا ہے؟ کیا صرف جوشِ گفتار کافی ہے؟ کیا عملی ایمان کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ جس طرح ہم قرآنِ کریم اور پیغمبر اسلام سے جذباتی اور قلبی تعلق رکھتے ہیں ، اس سے زیادہ عملی تعلق رکھیں ، جس قوت سے ہم احتجاج کررہے ہیں ، اسی قوت سے اپنی عملی زندگیوں میں انقلاب پیدا کریں ، اپنے سماج کی اصلاح کے لئے سرگرم ہوجائیں ، اللہ نے اپنا نظام ایسا بنایا ہے کہ اگر انسان اپنے قلب کی دنیا میں انقلاب پیدا کرلے تو باہر کی دنیا میں بھی انقلاب آہی جاتا ہے۔
کرنے کے کام
موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس کا مختصر خاکہ یہ ہے:
(۱) اپنے ایمان ویقین کو مستحکم اور مکمل کرنا ہے، جو نقائص اور کمیاں در آئی ہیں ان کا ازالہ