افواہوں پر یقین کرنے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا سماج پاک تھا، اور اسی لئے اس میں مثالی اتحاد اور اخوت کا جذبہ تھا، جو دوسروں کو حد سے زیادہ متأثر ومرعوب کرتا تھا۔
(۶) قول وعمل کی یکسانیت
قرآنِ کریم کی صراحت کے مطابق قول وعمل کا تضاد اللہ کی نگاہ میں بے حد مبغوض عمل اور انسانی سماج کے لئے زہر قاتل ہے، معاشرے کی اصلاح کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہر فرد غازئ کردار ہو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا اول خطبۂ خلافت اس حقیقت کے اظہار سے شروع کیا تھا کہ آج مسلمانوں کو غازئ کردار رہ نما کی ضرورت ہے، نہ کہ غازئ گفتار ورہنما کی۔ عہد صحابہ قول وعمل کی یکسانیت میں ممتاز تھا، اور اس معاشرے کا ہر فرد جو کہتا تھا سب سے پہلے اس پر عمل کرکے دکھاتا تھا، چناں چہ اس کی تاثیر یہ سامنے آتی تھی کہ گروہ در گروہ لوگ آکر اسلام کے دامن میں پناہ لیتے تھے۔
(۷) پاکیزگی
اسلام کا مطالبہ انسان سے ہمہ جہتی پاکیزگی کا ہے، صحابہ کا معاشرہ سرسے لے کر پیر تک پاکیزگی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، ان کے دل ودماغ باطل خیالات اور باطنی امراض سے پاک تھے، ان کی نگاہ پاکیزہ تھی، ان کی خوراک وپوشاک پاک تھی، ان کا ماحول ظلم اور عریانیت سے پاک تھا، ان کی انفرادی زندگی کا ہر پہلو اور گوشہ پاکیزہ تھا، ان کی زبان پاک تھی، اور ان کی سیاست بھی مکر وفریب سے پاک تھی، شراب کی رسیا عرب قوم کو جب اس کے ناپاک وحرام ہونے کا علم ہوا تو پورا مدینہ منورہ شراب کی لعنت سے پاک ہوگیا، تاریخ صحابہ پاکیزگی کے بے شمار ہمہ جہتی نمونوں سے مالا مال تاریخ ہے۔
(۸) ادائے حقوق
اسلام نے بندگانِ خدا پر حقوق عائد کئے ہیں ، اللہ کے حقوق کی الگ فہرست ہے، اور بندوں کے حقوق کی الگ؛ بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نسبۃً زیادہ اہم قرار دی گئی ہے، صحابہ کی