اس گستاخ کے منہ پر زور سے ایک طمانچہ رسید کردیا، عیسائیوں نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تک شکایت پہنچائی، حضرت غرفہ رضی اللہ عنہ کو طلب کیا گیا، انہوں نے پوری صورتِ حال بتائی اور واضح کیا کہ ہمارا ان عیسائیوں سے معاہدہ ضرور ہے، مگر یہ ملحوظ رہے کہ ہم اپنی، اپنے والدین کی، اپنے اقرباء کی تذلیل وتوہین گوارا کرسکتے ہیں ، مگر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین قطعاً گوارا نہیں کریں گے، حضرت عمرو نے کہا: ’’بے شک غرفہ تم ٹھیک کہتے ہو‘‘۔ (اسد الغابہ تذکرۂ غرفہ)
حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا کردار
دور اول کے مسلمانوں میں صحابی جلیل حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کا نامِ نامی سرِ فہرست ہے، خلافت فاروقی میں شام کی معرکہ آرائی میں مجاہدین کے ایک دستے کے ساتھ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ رومیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، رومیوں نے ان کو عیسائیت قبول کرنے اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے اور ان سے دست بردار ہونے کا حکم دیا، مگر انہوں نے پوری جرأت مؤمنانہ کے ساتھ انکار کردیا، ان کے سامنے کھولتے ہوئے تیل کی کڑھائی میں بعض مسلمانوں کو ڈال دیا گیا، یہ منظر دیکھ کر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ رونے لگے، عیسائیوں نے کہا کہ اب تمہیں موت نظر آرہی ہے، اس لئے رو رہے ہو، اب بھی موقع ہے کہ عیسائیت قبول کرلو، اس پر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ:
’’تم یہ سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں ، خدا کی قسم میں اپنے اس انجام پر نہیں ؛ بلکہ اس مجبوری پر رورہا ہوں کہ میرے پاس اللہ ورسول پر قربان کرنے کے لئے بس ایک ہی جان ہے، کاش! میری لاکھوں جانیں ہوتیں میں اس تیل کی کڑھائی میں گرکر ان کو اللہ ورسول کے لئے قربان کرتا رہتا‘‘۔
عشق وعقیدت کا یہ جذبہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے، رومیوں نے کہا کہ اگر تم ہمارے بادشاہ کی پیشانی کو بوسہ دو تو تم سمیت سبھی مسلمانوں کو آزاد کردیا جائے گا، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بادلِ ناخواستہ صرف اسّی مسلمانوں کی جان بچانے کی خاطر عیسائی بادشاہ کی پیشانی چومی،