ایک اسلامی معاشرہ، انسانی معاشرہ کو اسی وقت متأثر کرسکتا ہے جب وہ قرنِ اول (عہدِ صحابہ ث) کے مثالی سماج کی نمایاں خصوصیات اختیار کرلے، اور ان سے انحراف کو اپنے لئے تباہی کی علامت اسی طرح باور کرے جس طرح صحابۃ الرسول ان خصوصیات سے کسی بھی قیمت پر دست بردار ہونا ہلاکت کے مرادف سمجھا کرتے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاشرہ کی تمام خصوصیات کا احاطہ تو دشوار ہے، تاہم ان کے روشن عناوین کچھ یوں ہیں :
(۱) موقفِ حق پر محکم یقین اور استقامت
دل کی گہرائیوں سے حق قبول کرلینے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایسا پختہ یقین اور اپنے موقف پر ایسا ثبات واستقلال حاصل ہوجاتا تھا کہ باد مخالف کے کتنے ہی جھکڑ کیوں نہ چلیں ، رکاوٹوں کا طوفان کیوں نہ آجائے اور مصائب ومشکلات کی بھٹیوں میں تپایا کیوں نہ جائے؟ وہ کوئی لچک اور نرمی پیدا کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے، دشمنوں کی ترغیبات وتحریصات کا دام ہو یا تہدیدات وتشدیدات کی کارروائی، ان کے موقف میں سرمو انحراف نہ آتا تھا اور ان کی زبانِ حال یہ پیغام دیتی تھی ؎
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
(۲) جذبۂ ایثار وقربانی
معاشرتی زندگی کی کام یابی کا راز ایثار وقربانی میں ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سماج ایثار وقربانی کا آئیڈیل سماج تھا، قرآنِ کریم انصار صحابہ کے جذبۂ ایثار کو:
ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ۔ (الحشر)
ترجمہ: وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، خواہ خود اپنی جگہ محتاج