کوشش صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاشرے کا طرۂ امتیاز تھا۔
(۴) عدل ومساوات
قرآن ایسا ایمانی معاشرہ چاہتا ہے جو انصاف کا علم بردار اور مساوات کی روش پر قائم ہو، طبقاتی تفاوت اور اونچ نیچ اسلام کی نگاہ میں جاہلیت کی لعنت اور غلاظت ہے، ظلم اور ناانصافی امن عالم اور بقائے انسانیت کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا معاشرہ عدل ومساوات کی شاہ راہ پر گامزن تھا، اس سماج میں ہر فرد عدل کا خوگر تھا، خواہ اس کی زد اس کی اپنی ذات یا اس کے والدین واقارب پر کیوں نہ آتی ہو؟ اسی طرح مساوات اور برابری کے لحاظ سے بھی وہ معاشرہ نمونے کا تھا۔ مشہور غسانی سردار جبلہ بن ایہم جس نے اسلام قبول کرلیا تھا اور طواف کے دوران ایک دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کے تہ بند پر جاپڑا تھا، جس پر اس نے اسے اتنی زور سے مارا کہ ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہوگیا اور خون رسنے لگا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ سنایا کہ یا تو بدو کو راضی کرو یا قصاص کے لئے تیار ہوجاؤ، جبلہ نے لاکھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہا، مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسلام شاہ وگدا کا فرق نہیں کرتا، اس کا قانون عام مساوات کا قانون ہے، بالآخر جبلہ نے کچھ مہلت لی، اور راتوں رات بھاگ کر پھر عیسائی ہوگیا، مگر اسلامی قانونِ عدل ومساوات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آنچ نہ آنے دی۔
(۵) اجتماعیت واخوت
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معاشرہ باہمی الفت ومحبت میں جسم واحد کی طرح تھا، اور باہمی اتحاد واجتماعیت میں اس کی کیفیت {بنیان مرصوص} (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) کی طرح تھی، اوس وخزرج کی باہمی طویل خانہ جنگی اور سلسلۂ کشت وخون اسلام کی برکت سے باہمی محبت والفت میں اس طرح تبدیل ہوئے کہ منافق اور یہود مل کر بھی اس اجتماعیت میں دراڑ پیدا نہ کرسکے، اختلاف کو ہوا دینے والی چیزوں سے، ہر طرح کی بدگمانیوں اور بے جا خدشات سے اور