(۱) معرفت میرا سرمایۂ زندگی ہے
معرفت کے معنی پہچاننے کے ہیں ، اس کی دو قسمیں ہیں : ایک تو اپنے نفس کی معرفت ہے، دوسرے خدا کی معرفت ہے۔ نفس کی معرفت کو عرفانِ خودی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، انسان اگر بالکل غیر جانب دار ہوکر عرفانِ خودی میں مشغول ہو تو وہ آپ سے آپ معرفت خدا تک پہنچ جاتا ہے۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
ترجمہ: جس کو خودی کا عرفان حاصل ہوگیا اسے خدا کا عرفان حاصل ہوگیا۔
انسان عالم اصغر ہے، کائنات کی ہر چیز کا نمونہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہے، اگر وہ اپنی ذات میں تفکر کرے تو اسے اپنی عبدیت اوراللہ کی الوہیت ومعبودیت کا ناقابل شکست یقین حاصل ہوتا ہے، قرآن میں مختلف موقعوں پر معرفت خدا اور قبولِ حق کی دعوت کے ذیل میں انسان کو دلائل آفاق کے ساتھ ہی دلائل انفس کی مدد سے سمجھایا گیا ہے، انسان کو اپنی ذات میں غور کرنے اور اللہ کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ تک رسائی کی کوشش کی طرف بلایا گیا ہے۔ فرمایا گیا:
وفی الارض اٰیات للموقنین۔ وفی انفسکم افلا تبصرون۔
(الذاریات: ۲۰-۲۱)
ترجمہ: زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ، یقین لانے والوں کے لئے، اور خود تمہارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں ، کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟
بے نظیر ساخت کا جسم، حیرت انگیز قوتیں ، دماغ ودل، عقل وفکر، تخیل وشعور، ارادہ وحافظہ، احساسات وجذبات، خواہشات ومیلانات، سماعت وبصارت، قوتِ شامہ وذائقہ، زبان وگویائی، اور نہ جانے کتنی نعمتیں اس انسان کو دی گئی ہیں ، جو قدرتِ الٰہی کی جیتی جاگتی نشانیاں ہیں ، پھر ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ ہی کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم وتابع بنائی گئی ہے۔ چاند وسورج، لیل ونہار، صبح وشام، بحر وبر؛ بلکہ زمین اور آسمان کی تمام چیزیں انسان کے لئے مسخر ہیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ: