علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی باحمیت مؤمن بیٹے نے اپنے منافق گستاخ باپ کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا۔ (معارف القرآن ۸؍۴۵۳ مختصراً)
مجاہد اعظم صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کا کردار
ہلالِ نو کی درانتی سے فصل صلیبی کاٹنے والا مرد مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی جب یہ سنتا ہے کہ عیسائی سالار ارناط نے شانِ رسالت میں گستاخی کی ہے اور مدینہ جاکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک نکال کر ذلیل کرنے کی سازش رچی ہے، تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے، قاضی بہاء الدین شداد کے بقول جب ارناط کچھ عرصے بعد سلطان کے سامنے لایا جاتا ہے تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر سلطان اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیتا ہے اور سجدے میں گرجاتا ہے، اس کے آنسوؤں کی لڑیوں سے زمین دھلتی ہے، وہ کہتا ہے کہ خدایا! میرے نامۂ اعمال میں صرف سیاہ کاریاں ہیں ، تیرے محبوب کی محبت وعقیدت میں گستاخ کا جو قتل میں نے کیا بس اسی کو توشۂ آخرت سمجھتا ہوں ۔ (ہاتِ صلاح الدین ۴۰)
شیخ عبد النبی رحمہ اللہ کا کردار
۱۵۷۹ء میں متھرا کے قاضی عبد الرحیم نے مسجد کی تعمیر کے لئے سامان جمع کیا، اس پر ایک برہمن سردار نے اعتراض کیا، اور مسجد کی جگہ زبردستی مندر تعمیر کرالی، مسلمانوں نے روکنا چاہا تو اس نے برملا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، قاضی عبد الرحیم شکایت لے کر دربارِ اکبری کے صدر الصدور شیخ عبد النبی کے پاس پہنچے، صدر الصدور نے برہمن کو دربار میں طلب کرلیا، مقدمہ پیش ہوا، برہمن کا جرم ثابت ہوگیا، شیخ عبد النبی نے اسے موت کی سزا سنائی، برہمن مال دار اور بااثر تھا، اس کی سفارش میں اکبر کے وفادار راجپوت اور ہندو رانیاں اٹھ کھڑی ہوئیں ، اس کی رہائی کی کوشش کی، اکبر کو مشتعل کردیا، شیخ کو جان کی دھمکی دی گئی، مگر شیخ عبد النبی سمجھتے تھے کہ ؎
ع: بے جرأتِ رندا نہ ہر عشق ہے روباہی