یتیموں کا والی
قرآنِ کریم میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پوری انسانیت اور تمام کائنات کے لئے رحمت وبرکت ہے، اور دنیا کا کوئی بھی طبقہ اور فرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عام سے محروم وتہی دست نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، انسانوں کا کونسا وہ طبقہ ہے جس پر آپ کا براہِ راست یا بالواسطہ احسان نہیں ہے؟
لو لاک لما خلقت الافلاک۔
ترجمہ: اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا ہی نہ کرتا۔
اگرچہ لفظاً وروایۃً مشکوک ہے؛ تاہم اس سے یہ ضرور مفہوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے محسن اعظم ہیں ، اور سب کا وجود انہیں کی ذاتِ اقدس کا رہین منت ہے۔
انسانوں میں ایک طبقہ ان یتیم بچوں کا ہے جو بے سہارا اور قابل ترحم ہوتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان اور رحمت عام سے یہ طبقہ بھی محروم نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں آپ کی یتیمی کا ذکر کیا گیا ہے:
الم یجدک یتیماً فاٰویٰ۔ (الضحیٰ: ۶)
ترجمہ: کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تو اس نے آپ کو ٹھکانہ فراہم کیا۔
ایک مفکر کی زبان میں :
’’یتیمی کے داغ سے بڑھ کر اور کون داغ ہوسکتا ہے؟ اس وقت سے بڑھ کر بے کسی اور بے چارگی کا اور کون سا وقت ہوتا ہے؟ آج ساری دنیا کے بے کس،