انسان کے لئے جہاد میں جانے سے مال ودولت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ رکاوٹ ثابت ہوتا ہے، پھر خاندان میں آباء کا پہلے ذکر ہوا ہے پھر اولاد کا؛ اس لئے کہ مقام ومرتبہ کے لحاظ سے بھی اور فطری طور پر بھی آباء کا درجہ اولاد پر مقدم ہوتا ہے، خاندانی تفاخر کے باب میں بھی آباء ہی کا لحاظ کیا جاتا ہے، آباء کا دفاع آدمی اپنی اولاد؛ بلکہ اپنی ذات سے زیادہ کرتا ہے، اولاد کی اور اپنی برائی تو برداشت کرلی جاتی ہے، مگر آباء کی برائی قطعاً ناقابل تحمل ہوتی ہے، پھر چوں کہ بیٹے بھائیوں اور دیگر اہل خاندان سے کہیں زیادہ پیارے اور عزیز ہوتے ہیں ؛ اس لئے دوسرا درجہ ان کو دیا گیا ہے، پھر بھائیوں کا ذکر بیویوں سے پہلے ہے؛ کیوں کہ بھائی اپنے ہوتے ہیں جن کا کوئی بدل نہیں ، جب کہ بیویاں اجنبی ہوتی ہیں ، ان کا بدل دوسری بیوی ہوسکتی ہے۔ (بدائع التفسیر: امام ابن القیم جوزی ۲؍۳۵۰)
مفسر بیضاوی نے تحریر فرمایا ہے کہ:
وفی الاٰیۃ تشدید عظیم وقل من یتخلص منہ۔
(تفسیر البیضاوی بیروت ۲۵۰)
ترجمہ: یہ آیت بے حد سخت ہے، اور اس کی وعید سے بہت کم ہی لوگ بچ پاتے ہیں ۔
کیوں کہ اکثر افراد کے دلوں میں اہل وعیال اور مال کی محبت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، ہاں یہ ملحوظ رہے کہ آیت میں اللہ ورسول کی محبت سے اختیاری محبت مراد ہے؛ کیوں کہ طبعی محبت غیر اختیاری ہوتی ہے جو اہل وعیال سے ہوتی ہے، اس پر پابندی عائد کرنا وسعت سے زیادہ مکلف بنانا ہے؛ لیکن اگر کسی کو اللہ ورسول سے طبعی محبت ہوجائے تو یہ بہت اعلیٰ مقام ہے، اور اس سے اونچی کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔
احادیث میں اللہ ورسول کی محبت کو ایمان کی حلاوت اور چاشنی سے تعبیر کیا گیا ہے، دوستی ودشمنی اور محبت وعداوت نیز دینے نہ دینے کے تمام جذبات کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کو کمال ایمان قرار دیا گیا ہے، اللہ کو رب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور اسلام کو دین ماننے پر قلبی