ثابت ہوتے ہیں ۔
(۱) صلہ رحمی
اہل قرابت کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کے تمام حقوق کی ہر ممکن ادائیگی کا عنوان شریعت نے صلہ رحمی رکھا ہے، قرآن میں : {ذوی القربیٰ} (رشتہ داروں ) کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید متعدد مقامات پر آئی ہے، احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ قطع رحمی جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ فرمایا گیا:
لا یدخل الجنۃ قاطع۔ (متفق علیہ)
ترجمہ: قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔
صلہ رحمی کے دنیوی فوائد کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے کہ:
من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسألہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔
(متفق علیہ)
ترجمہ: جو شخص اپنے رزق میں فراخی اور اپنی عمر میں درازی چاہے تو وہ اہل قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
صلہ رحمی کی سب سے افضل صورت جس پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عمل خود آپ ا نے فرمایا ہے، اور جس کی آج سب سے اشد ضرورت ہے، اسے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ:
لیس الواصل بالمکافئ ولٰکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلہا۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: وہ آدمی صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو (صلہ رحمی کرنے والے اقرباء کے ساتھ) بدلے کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے، صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا دراصل وہ ہے جو اس حالت میں صلہ رحمی کرے اور قرابت داروں کا حق ادا کرے جب وہ اس کے ساتھ قطع رحمی اور حق تلفی کا معاملہ کریں ۔
معلوم ہوا کہ قطع رحمی کا جواب قطع رحمی سے دینا معاشرہ کے بگاڑ کو بڑھاوا دینا ہے، قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے، ظلم کا جواب معافی سے، دہشت گردی کا جواب رحمت سے دینا ہی معاشرے