کرلئے، آج کچھ گستاخوں کی بدزبانیوں کی وجہ سے پوری ملت اسلامیہ کا جوش ایمانی ابھر آیا ہے، دنیا کے ہر حصہ میں ہر سطح پر ہونے والے مظاہرے، احتجاجی جلسے اور اجتماعات اہل اسلام کی اُسی ایمانی حمیت وغیرت کا ثبوت ہیں جو انہیں صحابہ کرام، اسلاف واکابر اور مجاہدین اسلام سے ورثے میں ملی ہے، گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کردار
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد محترم حضرت ابوقحافہ نے اسلام لانے سے قبل حضرت ابوبکر کے سامنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی ایسی بات کہی جس سے بے ادبی ہوتی تھی، یہ سن کر حضرت ابوبکر کی ایمانی حمیت اور پیغمبرانہ عقیدت جوش میں آگئی، اور انہوں نے بلاتاخیر اپنے والد کو ایک طمانچہ رسید کردیا، طمانچہ اتنے زور کا تھا کہ ان کے والد زمین پر گرپڑے، حضرت ابوبکر جن کا خاص امتیاز زبانِ نبوت میں
ارحم امتی بامتی ابوبکر۔
ترجمہ: میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل انسان ابوبکر ہیں ۔
کے الفاظ سے بیان ہوا ہے، مگر شانِ رسالت میں گستاخی کا ایک کلمہ خواہ سگے باپ کی زبان سے ہی کیوں نہ ہو، انہیں مطلق برداشت نہ ہوا۔ (ملاحظہ ہو: معارف القرآن ۸؍۳۵۲)
حضرت غرفہ رضی اللہ عنہ کا کردار
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے، وہاں مقیم عیسائیوں سے جان، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا معاہدہ تھا، حضرت عمرو ذمی عیسائیوں کی خاص خبر گیری کرتے تھے اور اس کا اہتمام کرتے تھے کہ ان کا تحفظ رہے، اور کوئی گزند نہ پہنچے۔ ایک بار دورانِ مجلس ایک عیسائی سردار نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے دی، حضرت غرفہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے، انہیں اس اہانت رسول پر بڑا طیش آیا اور انہوں نے