یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
حدیث میں شک وارتیاب کو کفر قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقین وایمان لازم ملزوم ہیں ، یقین کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کسی عقیدہ کو عقلی دلائل کی روشنی میں مان لے یا دماغ اس کے مان لینے کا رسمی وسطحی انداز میں اعتراف کرلے؛بلکہ یقین تو یہ ہے کہ دل وجان سے کسی چیز پر اعتقاد ثابت وراسخ ہوجائے، اور عقل وارادہ اور جذبات سب پر وہی غالب ہوجائے اور چھاجائے۔
(۱۴) صدق میرا حامی اور سفارشی ہے
عقیدہ، زبان، دل، عمل، فکر ونظر سب کی سچائی آدمی کو صدیق بناتی ہے، راستی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد امتیازی وصف تھا، دعوائے نبوت سے قبل ہی آپ کو ’’الصادق‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا، تمام باطل قوتوں کے جھوٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستی اور سچائی نے شکست دی تھی۔
سچائی ایمان کی اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے، قرآنِ کریم سچوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیتا ہے، سچائی کو باعث اطمینان وسکون چیز قرار دیا گیا ہے، اسے نیکی اور جنت کی طرف راہ نما بتایا گیا ہے، اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ سچائی انسان کو زندگی کے ہر شعبہ میں نیک بنادیتی ہے، اور جھوٹ انسان کو ہر شعبۂ زندگی میں بدکار بنادیتا ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ مؤمن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا اور بددیانت نہیں ہوسکتا، ایمان کے ساتھ دروغ گوئی اور خیانت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ: ’’سچائی کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پچاس روز کے پرمشقت مقاطعہ سے اسی سچائی کی بدولت نجات ملی تھی؛ اسی لئے کہا گیا ہے کہ سچائی کی موت جھوٹ کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ: