بنیاد زہد اور یقین ہے۔ (بیہقی )
احادیث میں زہد کو محبت الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے، زاہدوں کی صحبت کی تلقین کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے خاص بندے عیش وتنعم سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا ہر لمحہ زہد واستغناء سے عبارت تھا، اسی لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زہد واستغناء آپ کا پیشہ تھا۔
(۱۳) یقین میری توانائی ہے
پہلے یہ حدیث ذکر کی جاچکی ہے کہ:
اول صلاح ہٰذہ الامۃ الیقین والزہد۔
ترجمہ: اس امت کے صلاح کی بنیاد زہد اور یقین ہے۔
یہ دونوں باہم دگریوں مربوط ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا، اور یہی تمام بھلائیوں کا منبع بھی ہے۔
یقین کی ایک قسم علم الیقین ہے جو عقل سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری قسم عین الیقین ہے جو مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور تیسری قسم حق الیقین ہے جو تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔ گویا یقین کے حصول کے تین ذریعے ہیں ، عقل ومشاہدہ اور تجربہ؛ اسی لئے اس میں علم، واقعیت اور راستی کی توانائی بھی ہوتی ہے اور یہ توانائی صبر وتحمل، پامردی، استقلال، عزیمت وشکیمت، ہمت وحوصلہ عطا کرتی ہے، اور اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑی سے بڑی قربانی پیش کردیتا ہے، عقائد وایمانیات میں روح اسی یقین کامل کی بدولت پڑتی ہے، یقین کی قوت سے محرومی موت کے ہم معنی ہے، قوتِ یقین سے مالا مال قومیں زندہ اور قائد ہوتی ہیں ،جب کہ اس سے تہی دست اقوام مردہ اور پس ماندہ ہوتی ہیں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پر، آخرت پر اور اپنی دعوت کی حقانیت اور اپنے مشن وپیغام کی صداقت اور واقعیت پر مکمل یقین تھا،اور اسی یقین کا نتیجہ تھا کہ مسلسل کامیابیوں نے آپ کے قدم چومے، یقین کا رتبہ سب سے بلند اور مقدم ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ: