کیوں نہ ہوں ۔
کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔ سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں مالی ایثار کی بے شمار داستانیں ہیں ، ہجرت نبوی کے پرخطر سفر کے موقع پر دشمنانِ اسلام کی طرف سے اجتماعی طور پر قتل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منظم پلاننگ معلوم ہونے کے باوجود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر آرام، اسی طرح سفر ہجرت کی دشوار گذاریوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے والہانہ طلب پر شرکت ورفاقت جانی ایثار کے عدیم النظیر نمونے ہیں ۔
غزوات کا موقع ہو، حفاظت رسول کا موقع ہو، تحفظ دین کا موقع ہو، ملت کی خدمت کا موقع ہو، ہر موڑ پر صحابہ کی قربانیوں اور ایثار کے ریکارڈ موجود ہیں ، اور اسلام سے محروم انسانی سماج پر صحابہ کے اس جذبے نے کیا کیا اثرات مرتب کئے اور کس طرح وہ اسلام سے قریب آیا، یہ بالکل واضح ہے۔
(۳) نافعیت اور مواسات
سب سے بہتر انسان وہ ہے جودوسروں کو نفع پہنچائے، مسلمان وہی ہے جس کی زبان درازیوں اور دست درازیوں سے انسان محفوظ رہیں ، مؤمن وہی ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلہ میں مامون وبے خوف ہیں ، اللہ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان بنیادوں پر آپ نے اسلامی معاشرہ قائم فرمایا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاشرے کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ انہوں نے ہمیشہ یہی انداز اپنائے رکھا کہ ؎
مری زبان و قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی کو شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ سے
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی تھی کہ تم کبھی کسی کو برا بھلا مت کہنا، وہ فرماتے ہیں کہ کہ پھر مرتے دم تک میں نے نہ کسی آزاد کو برا کہا نہ کسی غلام کو، اور انسان تو انسان ہے، کسی اونٹ اور بکری کے لئے بھی سخت کلمہ میری زبان سے نہیں نکلا، دوسروں کے درد کو اپنا سمجھنا؛ بلکہ اپنے درد سے زیادہ اس کا احساس اور ہمہ وقت دوسروں کو نفع پہنچانے کی