ایثار واتحاد سے آراستہ روشن کردار
ہجرتِ مدینہ منورہ سیرتِ نبوی کا اہم ترین واقعہ اور تاریخ اسلامی کے ایک بے حد نمایاں اورمؤثر دور کا نقطۂ آغاز ہے، ہجرت کے بعد انصار مدینہ کے مقدس گروہ نے مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت اور ایثار ومودت کا جو معاملہ کیا اور مسلسل کرتا رہا، وہ تاریخ عالم کا محیر العقول اور منعدم النظیر واقعہ تھا، اس کے اسباب کی جستجو انسان کو درماندہ کردیتی ہے، بس تمام اسباب کا اصل سبب یہی ملتا ہے کہ یہ صرف فضل خداوندی اور رحمت ربانی کا نتیجہ تھا، اس میں کسی انسانی حکمت وصنعت اور سیاست وتدبیر کی مطلق کار فرمائی نہ تھی۔ قرآن کریم میں خداوند قدوس نے یہ واضح فرمایا ہے کہ:
والف بین قلوبہم، لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبہم ولکن اللّٰہ الف بینہم، انہ عزیز حکیمٌ۔ (الانفال: ۶۳)
ترجمہ: اللہ نے مؤمنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دئے، اگر آپ روئے زمین کی تمام دولتیں بھی خرچ کرڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے، مگر وہ اللہ ہے جس نے ان کے دل جوڑے، یقینا وہ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے۔
قرآنِ کریم برملا کہہ رہا ہے کہ بکھرے ہوئے انسانی دلوں کو ایک رشتۂ الفت ومحبت میں پرونا اس دنیا میں انسان کے لئے سب سے مشکل کام ہے، خصوصاً صدیوں سے باہم کشت وخون کی فضا میں رہنے اور پرورش پانے والے اور باہمی محبت واتحاد کے الفاظ سے ناآشنا افراد میں وحدت پیدا کرنے کا کام تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے بڑے