کرنا ہے۔
(۲) دین کے لئے قربانیوں اور جاں فشانیوں کا مزاج پیدا کرنا ہے۔
(۳) معاشرے میں پھیلے ہوئے بگاڑ کی اصلاح کے لئے عملی قدم اٹھانا ہے۔
(۴) اپنی عملی زندگی کی اصلاح کو سب سے مقدم رکھ کر غازئ گفتار کے بجائے غازئ کردار بننا ہے۔
(۵) عقائد، معاملات، عبادات، معاشرت اور اخلاق سبھی شعبوں میں اسلام کے نظام کی تابع داری کرنی ہے۔
(۶) تقویٰ کی روحانی طاقت کے حصول کے ساتھ معاشی طور پر بھی اور اسباب ووسائل کے اعتبار سے بھی طاقت ور بننا ہے؛ تاکہ کوئی ہم کو نوالۂ تر سمجھنے کی غلط فہمی میں نہ رہے۔
ـ(۷) ممکنہ اسباب اور محنت کے ساتھ ہی توکل اور دعا کا اہتمام کرنا ہے۔
(۸) دین کے معاملے میں کسی طرح کی مفاہمت اور کمپرومائز نہیں کرنا ہے؛ بلکہ ایمانی غیرت وحمیت کا ثبوت دینا ہے، اور دنیا کو یہ دکھادینا ہے کہ اہل اسلام باطل سے کبھی دبنے والے نہیں ہیں ۔
اس خاکے کے مطابق عمل کرلیا جائے تو اس بات کی ضمانت ہے کہ دنیا وآخرت کی کام یابیاں قدم بوس ہوں گی، باطل طاقتوں کے منصوبے ناکام ہوجائیں گے، اور اللہ کی نصرت حاصل ہوگی اور:
ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم۔
ترجمہ: اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔
کا عملی ظہور ہوگا۔
حالات کا پیغام
پوری دنیا میں اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت کے جو طوفانی حالات ہیں اور جن کا ایک