مدینہ منورہ کے انصار نے مخلصانہ تائید وتعاون کی جو پیش کش کی تھی، اس کو قبول کرنے میں اس صورتِ حال کا بھی کافی اثر رہا۔
(۴) قریش کی حد سے بڑھی ہوئی سرکشی اور نخوت اور ان کا طبقاتی اونچ نیچ کا پائیدار نظام اسلام کی دعوت مساوات سے متصادم تھا، مدینہ منورہ میں اسلامی نظام مساوات کی تنفیذ کے کھلے مواقع فراہم تھے، یہ بھی ہجرت کا اہم سبب ثابت ہوا۔
بہرحال ہجرت نبویہ اسلام کے نئے دور کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی، اور دعوتِ اسلامی کے میدان میں اس کی بنیاد پر ایک نیا انقلاب آیا، اور اس کے متعدد اثرات ظاہر ہوئے۔ ایک اثر دعوتِ حق کی آزادی کی شکل میں سامنے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کی دعوت میں مصروف ہوگئے، انصار کے دونوں قبیلے اوس وخزرج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد پروانوں کی طرح اکھٹا رہتے تھے، ہر طرح سے آپ کی خدمت، مدد اور تعاون کے خواہاں تھے، یہ آزادئ دعوت ہجرت کا سب سے نمایاں نتیجہ تھا۔
قریش کی اذیتوں سے خلاصی اور مکمل امن وامان اور باہمی اخوت ومحبت کی مضبوط بنیادوں پر استوار بے خوف مؤمنانہ زندگی میسر ہونا ہجرت نبویہ کا دوسرا نتیجہ تھا۔
تیسرا اثر ہجرت کا مستقل اسلامی حکومت کی تشکیل کے روپ میں ظاہر ہوا، مکی زندگی کے تیرہ سال افراد کی اصلاح وتعمیر میں مصروف تھے، قلت تعداد اور کثرت مخالفین کی بنیاد پر مکہ میں اسلامی حکوت کا قیام نہیں ہوسکتا تھا، مگر مدینہ میں اہل حق کی کثرت اور امن وامان کی وجہ سے اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس نے قیامت تک کے لئے امت کو صحیح اسلامی حکومت کا نمونہ فراہم کیا۔
چوتھا اثر ہجرت کا یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری تیاری وتنظیم کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ ومدافعت کرنے کی پوزیشن میں آگئے، مکہ کی بے کسی کی زندگی میں صبر ہی کا حکم تھا، مقابلہ کی نہ وسعت وقدرت تھی اور نہ اجازت۔ اب مدنی زندگی میں مدافعت ومقابلہ کی اجازت دی گئی اور مختلف معرکوں میں اہل حق نے اہل باطل کو ناکوں چنے چبوادئے اور اپنی حقانیت کا علم لہرادیا۔