آئے مگر ہجرت نہ کی، تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے، جب تک کہ وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں ۔
ہجرتِ نبوی فی الواقع نفس کی خواہشات اور آرزوؤں کے خلاف اعلانِ جنگ تھی، اور اس کا مقصد دعوتِ اسلامی کے کارواں کو تیزی سے منزل مراد کی سمت پر گامزن کرنا تھا، ہجرت کے یوں تو مختلف اسباب ہیں ، مگر چند بنیادی اسباب درج ذیل ہیں :
(۱) اہل ایمان پر دشمنانِ دین کی طرف سے ظلم وستم، اذیت وقساوت کا سلسلہ ناقابل برداشت حد تک پہنچ گیا تھا، صحابہ پر کئے گئے مظالم کا صرف تذکرہ ہی دل ہلادیتا ہے، اور رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ حضرت بلال حبشی، حضرت سمیہ، حضرت یاسر، حضرت خباب، حضرت عمار اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہم پر کئے گئے مظالم کی لرزہ خیز داستان اس کا ایک نمونہ ہے۔ مظلوموں کو ظلم سے بچانے، غیروں کو دائرۂ اسلام میں لانے اور ظلم کے اقدامات سے دور رکھنے کے لئے ہجرت کا عمل ناگزیر ہوگیا تھا۔ چناں چہ ہجرت کے بعد اہل اسلام کا دائرہ وسیع تر ہوا اور مسلمانوں کو کافروں کے ظلم سے خلاصی حاصل ہوئی۔
(۲) اہل حق کے لئے دشمنوں کی طرف سے اقتصادی ومعاشی بے شمار رکاوٹیں تھیں ، خاندان بنو ہاشم، اور دیگر تمام مسلمانوں کا ایک عرصہ تک تمام کافروں نے مقاطعہ کیا، مکمل بائیکاٹ کی وجہ سے ان مظلوموں کو درختوں کے پتوں تک پرگزر اوقات کرنا پڑی، دعوتِ اسلامی کی نشر واشاعت کو روکنے کے لئے باہر کے لوگوں سے مسلمانوں کی ملاقات پر پابندیاں عائد تھیں ، اس صورتِ حال کا بھی ہجرت کے وقوع پذیر ہونے میں اہم رول رہا۔
(۳) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمہ وقتی مؤید ومددگار اور مونس وغم خوار افراد کا سانحۂ وفات بھی بڑی اذیت کا باعث ہوا، چچا جان حضرت ابوطالب اور زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ایک ہی سال میں آگے پیچھے انتقال ہوگیا، ان کے بعد قریش کو آپ پر برملا کھل کر ظلم کرنے اور پریشان کرنے کا موقع مل گیا، اس صورتِ حال نے آپ کو حد سے زیادہ دل گیر اور رنجور کیا،