ہجرت کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجد قباء پھر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی، خود تعمیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوئے۔
مسجد کی تعمیر کا مقصد اجتماعی نظام عبادت کو قائم کرنا اور ساتھ ہی مرکزیت واجتماعیت کی روح کو فروغ دینا تھا، چناں چہ پھر مسجد ہی مرکز بنی رہی اور تربیت وتزکیہ کے تمام تر کام یہیں سے انجام پاتے رہے۔
اس موقع پر دوسرا کام یہ ہوا کہ انصار ومہاجرین میں مواخات (بھائی چارہ) قائم فرمائی، اور اس بنیاد پر ایک ایسا مخلص ومؤمن معاشرہ تشکیل پایا جس کی نظیر ملنی ناممکن ہے۔
مواخات کے بعد تیسرے مرحلہ پر اسلامی حکومت کی تشکیل دی گئی، جس کی بنیاد وحدت عامہ، مساوات، ظلم وجرم کا مقابلہ، دشمن سے احتیاط، تعاون علی البر والتقویٰ، جیسے اصول پر رکھی گئی۔
یہ اس ہجرت نبویہ کے نتائج وثمرات ہیں جو عالم گیر انقلاب کا محرک اور داعی ثابت ہوئی، اور جس نے پوری انسانیت کو یہ پیغام دے دیا کہ ایمان وعقیدہ کی حفاظت جان سے بڑھ کر ہونی چاہئے، اللہ ورسول سے محبت کا بے حد مستحکم اور شعوری تعلق ہونا چاہئے، اور اعلاء حق اور غلبۂ دین کے لئے تڑپ اور فداکاری کا جذبہ دل میں موج زن ہونا چاہئے، اور اس کے لئے صبر وتحمل، توکل واعتماد، استقامت وثابت قدمی، سرفروشی وجاں بازی اور بلند کرداری وخوش خلقی کے اوصاف سے آراستگی کو کلیدی مقام حاصل ہے، یہی ہجرت نبویہ کا پیغام اور درس ہے، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی کا سفر اس کی روشنی میں رواں دواں رکھے اور کسی بھی موڑ پر اس روشنی سے خود کو محروم نہ ہونے دے۔
،l،