آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو انصار مدینہ سے حسن معاملہ کی تلقین بھی فرمائی، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ انصار مدینہ کی ایک مجلس سے گذرے، دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں ، سبب دریافت کیا، معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا ذکر کرکے رو رہے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، آپ باہر تشریف لائے، منبر پر چڑھ کر حمد وثنا کے بعد فرمایا:
اوصیکم بالانصار، فانہم کرشی وعیبتی، وقد قضوا الذی علیہم، وبقی الذی لہم، فاقبلوا من محسنہم وتجاوزوا عن مسیئہم۔
(بخاری شریف)
ترجمہ: اے لوگو! میں تم کو انصار کے بارے میں خیر کی ہدایت ووصیت کرتا ہوں ، انصار میرے خاص، مقرب، راز دار اور قریبی ہیں ، وہ اپنے ذمہ کے حقوق ادا کرچکے ہیں ، ہاں ان کے حقوق باقی ہیں ، تم ان کے نیکوکار کی بات قبول کرو، اور ان کے خطاکار سے درگذر کرو۔
ایمانِ کامل، اخلاص وایثار اور اتحاد واتفاق کی نعمت سے سرفرازی نے انصار کو اتنا بلند بنادیا تھا کہ قرآنِ کریم میں اللہ نے ان کا ذکر فرماکر انہیں جاودانی عطا فرمادی، اور بلاشبہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور نگاہِ کرم کا اثر تھا جس نے انہیں کندن اور کیمیا بنادیا تھا۔
انصار کا ایثار واتحاد سے آراستہ کردار سیرتِ نبویہ کا روشن ترین باب ہے، جو ہر طالب خیر کو اپنی روشنی سے فیض یاب ہونے کی مؤثر ترین دعوت پیش کررہا ہے۔ کاش! ہم اس دعوت پر لبیک کہنے والے بن جائیں ۔
،l،