والذین تبوء وا الدار والایمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم، ولا یجدون فی صدورہم حاجۃ مما اوتوا ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ، ومن یوق شح نفسہ فاولٰئک ہم المفلحون۔ (الحشر: ۹)
ترجمہ: وہ لوگ (انصار) جو دارالہجرت میں ایمان لاکر مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی مقیم تھے، ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں ، اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے، اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالئے گئے وہی فلاح یاب ہیں ۔
انصارِ مدینہ کے انہیں مآثر ومفاخر کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اٰیۃ الایمان حب الانصار، واٰیۃ النفاق بغض الانصار، الأنصار لا یحبہم الا مؤمن، ولا یبغضہم الا منافق، فمن أحبہم أحبہ اللّٰہ، ومن أبغضہم أبغضہ اللّٰہ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ: انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے، ان سے مؤمن ہی محبت کرے گا، جو ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا، اور انصار سے دشمنی نفاق کی نشانی ہے، ان سے منافق ہی بغض رکھے گا، جو ان سے عداوت رکھے گا اس سے اللہ عداوت رکھے گا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو لا الہجرۃ لکنت امرأً من الانصار، الانصار شعار والناس دثار۔ (زاد المعاد)
ترجمہ: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا، انصار مقرب ترین اور مخصوص ترین ہیں ، دوسروں کا درجہ ثانوی ہے۔