روایات میں آتا ہے کہ غزوۂ بنو النضیر کے بعد بنو نضیر کے اموال وجائیداد کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ:
’’اگر تم چاہو تو میں یہ مال انصار ومہاجرین سب میں تقسیم کردوں اور مہاجرین حسب سابق تمہارے مکانوں میں رہیں ، اور اگر تم چاہو تو میں یہ سارا مال مہاجرین میں تقسیم کردوں اور مہاجرین تمہارے گھروں کو چھوڑکر الگ گھر بسالیں ، یہ سن کر انصار مدینہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ یہ مال سب کا سب ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرمادیجئے اور پھر بھی وہ بدستور ہمارے مکانوں میں مقیم رہیں ‘‘۔ (تفسیر بغوی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ میں بھوک کے مارے پریشان وبے حال ہوں ، آپ نے ایک ایک کرکے اپنی ازواج مطہرات کے گھروں سے کھانا منگوایا، مگر ہر جگہ سے جواب آیا کہ پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، آپ نے حاضرین مجلس صحابہ سے فرمایا کہ کون اس شخص کی آج مہمان نوازی کرے گا؟ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں ، گھر لے گئے، بیوی نے بتایا کہ صرف بچوں کے کھانے کے بقدر کھانا ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بچوں کو سلادو، مہمان کے سامنے کھانا رکھو، کھانا ساتھ شروع کرنے کے بعد چراغ بجھوادینا، ہم مہمان کی تسلی کے لئے دکھاوے کو منہ چلاتے رہیں گے؛ تاکہ وہ سمجھے کہ ہم کھارہے ہیں اور وہ آسودہ ہوجائے، چناں چہ ایسا ہی ہوا، صبح کو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ خدمت رسول میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری رات کی ادا اللہ کو بے حد پسند آئی ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)
انصار صحابہ کے اس جیسے متعدد واقعات ہیں ، انہیں کے بارے میں قرآنِ کریم نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ: