تک پہنچادیا جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے، اور ہم اگر ان رفعتوں کے لئے سر اٹھائیں تو ہمارے سروں کی کلاہ بھی گرجائے، اور ان کی عظمتوں کا اندازہ نہ ہوسکے۔ مغربی مفکرین اور معترضین وناقدین اسلام اس راز سے آشنا وآگاہ نہ ہوپائیں اور اس حقیقت کا ادراک نہ کرپائیں ، تو کوئی تعجب نہیں ؛ کیوں کہ یہ وہ مردانِ باصفا ہیں جن کی زندگی کا معیار یورپ میں بسنے والے ترقی یافتہ انسانوں کے معیار زندگی سے بالکل مختلف اور جداگانہ ہے، یہ وہ اصحابِ حق ہیں جو بجا طور پر فرسٹ گریڈ (First Grade)کے لوگ تھے اور تاریخ ان کی نظیر نہیں لاسکتی۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ ہجرت کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور حضرت سعد بن ربیع انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی، اس کے بعد حضرت سعد نے اپنا مال اپنے اور میرے درمیان تقسیم کرنے کی پیش کش کی، پھر کہا کہ میری دو بیویاں ہیں ، جو تمہیں زیادہ پسند ہو میں اس سے تمہارے حق میں دست بردار ہوکر اسے طلاق دے دوں گا، پھر اس کی عدت گذرجانے کے بعد تم اس سے نکاح کرلینا، اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ان سے کہا کہ اللہ تمہارے مال اور اہل وعیال میں برکت دے، مجھے اس کی حاجت نہیں ، مجھے بس بازار کا راستہ بتادو، چناں چہ انہوں نے راستہ بتادیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جاکر کچھ فروخت کیا اور خریدا، کچھ مال جمع ہوگیا پھر ایک انصاری خاتون سے نکاح کیا‘‘۔ (صحیح بخاری، باب کیف آخی النبی بین اصحابہ)
اس واقعہ سے انصار صحابہ کے اعلیٰ درجہ کے ایثار کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے، انصار نے مہاجرین کے ساتھ جو محبت واحسان کا معاملہ کیا تھا، اس کی تلافی کے طور پر ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے حاصل شدہ مال صرف انصار ہی میں تقسیم کرنا چاہا، مگر انصار صحابہ اس پر تیار نہ ہوئے اور عرض کیا کہ جب تک ہمارے مہاجرین بھائیوں کو اس میں حصہ نہ دیا جائے گا ہم بھی نہیں لیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر)