صاحب حکمت وتدبیر ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود تمام ممکنہ مالی وسائل کے استعمال واختیار کے بعد بھی وہ اس وحدت ویکجائی کو پیدا کرنے پر قادر نہ ہوپاتے، یہ تو محض فضل خداوندی کا کرشمہ اور خدائے کریم وقادر کی کریمی وکارسازی کا مظہر تھا کہ ان شکستہ دل افراد کو نسلی، قبائلی، لسانی اور وطنی تفریقوں سے بالاتر اور ہر طرح سے نصرتِ دین پر یکجا ومتحد کردیا، اور پھر یہی لوگ جو صدیوں سے باہمی کینہ وبغض کے مجسمے تھے اب ان میں باہمی محبت والفت کی ایسی پاکی وقدوسیت ابھر آئی کہ ہر فرد دوسرے کے لئے اپنا سب کچھ قربان اور نچھاور کرنے پر بخوشی آمادہ ومستعد ہوگیا۔
مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے بقول:
’’اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی باہمی الفت ایک ایسی نعمت ہے جسے خدا نے اپنا خاص انعام قرار دیا ہے، افسوس ان پر جو اس نعمت سے محرومی پر قانع ہوگئے اور اس کے لئے اپنے اندر کوئی جلن محسوس نہ کی، آج باہمی الفت کی جگہ باہمی مخاصمت مسلمانوں کی سب سے بڑی پہچان ہوگئی ہے، اسی کو انقلابِ حال کہتے ہیں ‘‘۔
(ترجمان القرآن ۳؍۲۱۱)
اللہ کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ کے تحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور صحبت کے فیض واثر سے مختصر ترین مدت میں انصار مدینہ کی کایا بالکل پلٹ گئی اور پھر تاریخ نے یہ ریکارڈ آج تک محفوظ رکھا ہے کہ یہ باہم برسر پیکار قوم کس طرح اعلائِ حق اور نصرتِ دین کے لئے {بنیان مرصوص} (سیسہ پلائی ہوئی عمارت) اور دیوار آہنی اور ناقابل تسخیر چٹان ثابت ہوئی۔
ہجرت کے بعد مہاجرین کے لئے انصار کا یہ گروہ اسی اسلام کی برکت سے مسلسل دیدہ ودل فرشِ راہ کئے رہا، گھر بار، مال ودولت، جائیداد وزمین اور کاروبار وتجارت ہر جگہ انصار مدینہ نے مہاجرین کے لئے ایثار اور دریا دلی، کریم النفسی اور فیاضی، الفت اور حسن معاملہ ومعاشرت کا جو ثبوت پیش کیا وہ تاریخ کا نادر ترین واقعہ تھا، اور اسی نے انہیں عظمتوں اور رفعتوں کے اس مقام