پیشاب کرنے لگا، صحابہ رضی اللہ عنہم اسے مارنے دوڑے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومنع کیا ور فرمایا: اسے چھوڑ دو، اور پانی سے صفائی کردو، تم آسانیاں کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو نہ کہ سختیاں کرنے والے بناکر۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آپ نے سختی سے بچتے ہوئے نرمی کا برتاؤ کیا اور شفقت کا معاملہ کیا، اور پھر نرمی سے دیہاتی کوسمجھادیا کہ مسجدیں نماز وتلاوت اور ذکر اللہ کے لئے ہیں ، یہاں گندگیاں پھیلانا غلط بات ہے، دعوت وتربیت کے میدان میں اس واقعہ سے حسن معاملہ، لینت اورنرمی کے زریں اصول اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔
اسی اسلوب کا دوسرا نمونہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ: ’’میں مدینہ منورہ میں دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا، میں نوعمر لڑکا تھا، اس لئے میرا ہر کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تھا اور نوعمری کی وجہ سے بہت کوتاہیاں بھی ہوجاتی تھیں ؛ لیکن دس سال کی اس مدت میں کبھی آپ نے مجھے اُف کہہ کر بھی نہیں ڈانٹا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا‘‘؟ (ابوداؤد شریف)
اسی کا ایک نمونہ حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ: ’’میں چھوٹاسا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت تھا، کھاتے وقت میرا ہاتھ پیالہ میں گردش کرتا رہتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سمجھایا کہ بسم اللہ پڑھ کر دائیں ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھاؤ‘‘۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، لیٹنے سونے اور جاگنے حتی کہ بیت الخلاء آنے جانے اور استنجاء کرنے کے تمام طریقے اور آداب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سکھائے، اس طرح زندگی کے ہر مرحلہ میں آپ کی تعلیمات اور تربیتی اسلوب پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
یہ نبوی تعلیم وتربیت کے چند نمونے ہیں ، کتب احادیث میں ایسے بے شمار نمونے ہیں ، جن کی تقلید دنیا وآخرت کی سعادت وفلاح کا باعث ثابت ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔
،l،