رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہ ایک نمونہ ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تربیت کے نتیجہ میں بے مقصد زندگیوں کو بامقصد بنایا اور لوگوں کو اسلام کے دامن عدل میں لاکر دیگر مذاہب کے ظلم وبربریت سے بچایا، اور پھر انہیں صحابہ کرام نے ایسی اسلامی حکومت تشکیل دی جس کی نظیر تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی، اور انہیں کی محنت سے اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، اور عجیب بات یہ سامنے آئی کہ انہوں نے دلوں کو اپنے اخلاق سے فتح کیا، اس طرح اسلام کا نور مشرق ومغرب میں پھیل گیا، یہ ساری فتوحات وکامیابیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجہ میں حاصل ہوئیں ۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی اخلاقی تعلیم وتربیت کا کوئی دقیقہ فر وگذاشت نہ ہونے دیتے تھے۔ ان تعلیمات میں بطور خاص راستی، وفاداری، ایثار، قناعت، قربانی، صبر، توکل، اتحاد، محبت، اخلاص، عفت، امانت ودیانت، مساوات ومواسات وغیرہ شامل ہیں ۔ پھر آپ کے شاگرد صحابہ کی زندگیاں ان تعلیمات پر عمل کے قالب میں ہر موقع پر پر ڈھلی ہوئی نظر آتی ہیں ، اتنی تاثیر وکشش کی اصل وجہ آپ کا حکیمانہ اسلوب ہے، جس کا ذکر قرآنِ کریم نے یوں کیا ہے:
فبما رحمۃ من اللّٰہ لنت لہم، ولو کنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک، فاعف عنہم واستغفرلہم وشاورہم فی الامر۔
(اٰل عمران: ۱۵۹)
ترجمہ: یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ، ورنہ اگر کہیں آپ تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد وپیش سے چھٹ جاتے، ان کے قصور معاف کیجئے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کیجئے اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ کیجئے۔
اسی اسلوب کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ ایک بار ایک دیہاتی ناواقفیت کی وجہ سے صحن مسجد میں