افراد تیار کئے جائیں ۔
مطالعۂ سیرت سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تعلیمی وتربیتی میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب اپنی تاثیر اور جاذبیت کے لحاظ سے سحر آفریں تقریروں ، ادیبانہ مقالات ومضامین اور دل کش قصوں اور واقعات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ فائق تھا، اور یہ اسی حکیمانہ معتدل اسلوب کی برکت تھی کہ عرب کی نِری جاہل، وحشی، ایک دوسرے کے خون کی پیاسی اور جان کی دشمن، اخلاق سے کوری اور تند خو قوم میں سے ایسے افراد تیار ہوئے، جنہیں قرآنِ کریم نے خیر امت قرار دیا، اور جنہیں امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اصلاح عالم اور قیادت کی عظیم وگراں بار ذمہ داریاں سونپی گئیں ، اور جو اپنے بعد والوں کے لئے نمونہ اور آئیڈیل ثابت ہوئے، اور جن کے بارے میں قرآنِ کریم نے کہا کہ ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں ، جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو سچاکر دکھایا‘‘، اور جنہوں نے ہر موقع پر قربانیاں دیں ، اللہ ورسول کی پکار پر لبیک کہا، اور اسلام کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنایا، اور جاہلی زندگی کے اخلاقی بگاڑ، کرپشن، سماجی برائیوں اور لعنتوں ، انارکی، ظلم، بدعنوانی، بھید بھاؤ، اونچ نیچ، بے حیائی، بدکرداری، بے ایمانی اور لاقانونیت سے نکل کر نیکی، امانت، عدل، مساوات، حیا، ایمان داری اور پاکیزگی کے جوہر سے آراستہ ہوئے، اسی کا ذکر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اس بلیغ تقریر میں ملتا ہے جو انہوں نے شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں پورے جوش وجذبہ سے کی تھی، انہوں نے کہا تھا: ’’اے بادشاہ! ہم جاہل تھے، بتوں کے پرستار تھے، مردار خور، بدکار، بے حیا، بے رحم، بدمعاملہ اور رشتوں ناتوں کو توڑنے والے تھے، ہم میں سے طاقت ور کمزور کو کھا اور دبا رہا تھا کہ اللہ نے ہم پر رحم کیا، اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا، جس کے نسب، راستی، امانت، پاکیزگی اور اعلیٰ کردار سے ہم واقف ہیں ۔ پیغمبر نے ہمیں اللہ کی وحدانیت وعبادت کی دعوت دی، ہمیں معبودانِ باطل سے دست برداری کا حکم دیا، ہمیں نماز وروزہ وزکوٰۃ کا حکم دیا، ہم نے اسے سچا جانا، ایمان لائے، اس کے احکام کی پیروی کی، ایک اللہ کی بندگی کی، شرک سے باز آئے اور اپنا طور طریقہ بدل ڈالا۔