وثمرہ بتایا گیا ہے۔ احادیث میں بھی یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ صبر کے نتیجہ میں انسان بہرصورت اپنے رب سے مربوط اور وابستہ رہتا ہے، اور مصائب وناکامیوں اور رنج وغم کے ہجوم میں بھی وہ دل شکستہ، پژمردہ اور مایوس نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کی عملی توانائیاں بڑھ جاتی ہیں ۔
قرآن کا بیان ہے کہ اللہ کی معیت اور نصرت صبر کرنے والوں کے شامل حال رہتی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر موڑ پر صبر وتحمل کا نمونہ ملتا ہے، بارہا مصائب کا طوفان آیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر وتحمل اور استقامت میں پہاڑ سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی مدد اور نصرت ہر موقع پر آپ کے ساتھ رہی۔
قرآن کہتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب متعین ومقدر ہے، مگر صبر کا اجر بے حساب ہے۔ ارشاد ہے:
انما یوفیّٰ الصابرون اجرہم بغیر حساب۔ (الزمر: ۱۰)
ترجمہ: صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔
حدیث میں روزوں کے بارے میں بے حساب اجر کا ذکر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ بھی صبر ہی کی قسم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ قیامت کے دن میزانِ عدل قائم کی جائے گی، اہل صدقہ آئیں گے تو ان کے صدقات کو تول کر اس کے حساب سے پورا پورا اجر دے دیا جائے گا، پھر جب بلا اور مصیبت میں صبر کرنے والے آئیں گے، تو ان کے لئے کوئی کیل اور وزن نہیں ہوگا؛ بلکہ بغیر حساب واندازہ کے ان کی طرف اجر وثواب بہا دیا جائے گا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی دنیوی زندگی عافیت میں گذری، تمنا کرنے لگیں گے کہ کاش! ان کے بدن دنیا میں قینچیوں کے ذریعہ کاٹے گئے ہوتے، تو ہمیں بھی صبر کا ایسا ہی صلہ ملتا۔ (معارف القرآن ۷؍۵۴۳)
قرآن کی صراحت کے مطابق اہل صبر پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات اور نوازشیں ہوں گی، رحمت الٰہی ان پر سایہ فگن ہوگی اور وہ ہر موڑ پر راست رو رہیں گے۔ (ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ: ۱۵۷)
احادیثِ نبویہ میں کہیں صبر کو سراسر خیر اور موجب برکت بتایا گیا ہے، اور کہیں جنت میں