ترجمہ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور بیویاں اور عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے پسندیدہ گھر تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں ، تو انتظار کرو یہاں تک کہ جو کچھ خدا کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے۔
مولانا آزادؒ اس آیت کے ذیل میں رقم طراز ہیں :
’’یہ آیت مہمات مواعظ میں سے ہے اور اس باب میں قطعی ہے کہ اگر حب ایمانی وغیر ایمانی میں مقابلہ ہوجائے تو مؤمن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی اور محبت اور علاقہ بھی غالب نہ آسکے… محبت ایمانی کی اس آزمائش میں صحابہ کرام جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے، اور محتاج بیان نہیں ، بلا شائبہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ نے اللہ کے رسول سے راہِ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے، اور پھر اسی کی راہ سے سب کچھ پایا، جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے؛ لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو جرأت ہوسکتی ہے کہ یہ آیت اپنے سامنے رکھ کر اپنے ایمان کا احتساب کرے؟‘‘۔ (ـترجمان القرآن ۳؍۲۵۳-۲۵۴ ملخصاً)
اللہ ورسول کی محبت کی سب سے بڑی علامت، شرط اور نتیجہ اطاعت وپیروی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ ویغفرلکم ذنوبکم، واللّٰہ غفور رحیم۔ (اٰل عمران: ۳۱)
ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری