پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
اس آیت میں دعوائے محبت کی جانچ کے لئے سب سے اچھا معیار یعنی ایمان واتباع بیان کیا گیا ہے، قرآن شاعرانہ محبت سے متوحش ہوتا ہے، وہ اسی محبت کو سند اعتبار بخشتا ہے جو اطاعت وانقیاد کی شکل میں رونما ہو۔
اللہ ورسول کی محبت کے سوا خلق خدا کی محبت بھی ایک مؤمن کا طرۂ امتیاز ہوتی ہے، باہمی محبت کرنے والے بندوں سے اللہ بھی محبت کرتا ہے، اور انہیں قیامت کے روز عرشِ الٰہی کے سائے میں نور کے منبروں پر جگہ ملے گی، باہمی محبت کو پروان چڑھانے کا اہم نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سلام کی ترویج واشاعت‘‘ بتایا ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا:
والذی نفسی بیدہ لن تدخلوا الجنۃ حتی تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتی تحابوا، الا ادلکم علی شیئ اذا فعلتموہ تحاببتم، افشوا السلام بینکم۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم جنت میں بلاایمان داخل نہ ہوسکوگے، اور بغیر باہمی محبت کے تم مؤمن نہ ہوسکوگے، کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتادوں جس کی بنیاد پر تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے، تم آپس میں سلام کو رواج دو۔
ایک دوسری حدیث میں اللہ ہی کے لئے محبت کرنے او رمحبت ونفرت کے تمام جذبات مرضئ مولیٰ کے تابع کردینے کو کمالِ ایمان کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اس کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کا معاملہ اللہ کی توجہ اور رحمت ومحبت کے انجذاب کا اہم ترین باعث ہوتا ہے۔