سلیم کے قبضہ میں ہوگا، نفس امارہ کی پیروی سے وہ دور رہے گا۔ اللہ نے بے عقلوں کے بارے میں فرمایا:
ویجعل الرجس علی الذین لا یعقلون۔ (یونس: ۱۰۰)
ترجمہ: جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
واضح فرمایا گیا کہ جو طالب حق نہ ہو اور اپنی عقل کو تعصبات کی تاریکیوں میں چھپائے ہوئے ہو یا جستجوئے حقیقت میں بالکل عقل کا استعمال ہی نہ کرے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں ضلالت وجہالت اور محرومی وغلط کاری کی غلاظت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، وہ اپنے کو اسی نجاست کا اہل بناتا ہے اور یہی اس کی قسمت میں لکھی جاتی ہے۔
عقل سے کام نہ لینا فی الواقع دل کی نابینائی اور کجی کی وجہ سے ہوتا ہے، کفار کے انکار حق کے تذکرہ کے ذیل میں قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی ہے:
أفلم یسیروا فی الارض فتکون لہم قلوب یعقلون بہا او اٰذان یسمعون بہا، فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔ (الحج: ۴۶)
ترجمہ: کیا یہ کافر زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے خاص بندوں کے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے، ان اوصاف میں ایک وصف یہ بھی ہے:
والذین اذا ذکروا باٰیات ربہم لم یخروا علیہا صماً وعمیاناً۔
(الفرقان: ۷۳)
ترجمہ: اگر ان کے رب کی آیات سناکر انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر