کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا دھرا سب اکارت اور غارت ہوجائے اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔
اس آیت کریمہ میں ایک طرف مجلس رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آواز بلند کرنے سے اور دوسری طرف نبی سے بلند آواز میں گفتگو کرنے سے منع فرمادیا گیا ہے؛ کیوں کہ یہ حرکت بے احترامی اور ناقدری کا ثبوت ہوتی ہے، اس لئے اس سے روکا گیا ہے، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
آیت میں یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب سے عالی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی انسان کتنا ہی محترم کیوں نہ ہو؟ مگر اس کی بے احترامی عند اللہ اس سزا کی مستحق نہیں ہوتی جو کفر کی ہے؛ بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے ایک ناشائستہ طرز عمل اور بدتہذیبی قرار دیا جاتا ہے، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واکرام میں ادنی سی کمی اور کوتاہی اتنا بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے کہ اس سے انسان کی زندگی بھرکی کارکردگی اور کمائی تباہ اور اکارت ہوسکتی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکرام درحقیقت خداوند قدوس کا اکرام ہے، اور آپ کی بے ادبی ذاتِ الٰہی کی بے ادبی کے ہم معنی ہے۔ اس سے اگلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پست آوازی دلوں میں موجود تقویٰ کی علامت ہے، اور اندر کی پاکیزگی کا ثبوت ہے، اس سے خود یہ واضح ہوتا ہے کہ بلند آوازی اندرون کی پلیدی اور قلب وباطن کے محرومِ تقویٰ ہونے کی دلیل ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول کے تعلق سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ بنو تمیم کا ایک قافلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے کہ قعقاع بن معبد کو ان کا امیر بنادیجئے، عمر بولے کہ اقرع بن حابس کو بنادیجئے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا کہ تم نے تو بس میری مخالفت ہی پر کمر باندھ رکھی ہے، عمر نے کہا کہ میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ میری رائے ہی یہی ہے، ان دونوں میں جھگڑا بڑھ گیا، حتی کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(بخاری شریف)