ترجمہ: یتیموں کو ان کا مال دو اور ان کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے بدلا نہ کرو اور نہ اپنے مال کے ساتھ ملاکر ان کا مال کھاؤ، یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔
ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ہی احسن۔ (الانعام: ۲)
ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین (حلال) ہو۔
یہ تو صاحب ثروت یتیموں کا معاملہ ہے، ورنہ غریب ومفلس یتیموں کی تربیت، دیکھ بھال، تعاون اور مدد مسلمانوں کا فرض ہے۔ قرآنِ کریم کی دسیوں آیات میں اس کی تاکید آئی ہے، اور یتیموں کو خیرات وصدقات کا اہم ترین مصرف قرار دیا گیا ہے، اور حسن سلوک کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یتیموں کی اہمیت کا علم ہوتا ہے، کبھی آپ نے فرمایا:
انا وکافل الیتیم لہ ولغیرہ فی الجنۃ ہٰکذا۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح پاس پاس ہوں گے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے بتایا، اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔
کبھی فرمایا:
من اٰویٰ یتیماً الی طعامہ وشرابہ اوجب اللہ لہ الجنۃ البتۃ الا ان یعمل ذنباً لا یغفر۔ (ترمذی شریف)
ترجمہ: اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے کر اپنے خورد ونوش میں اسے شریک کرلیا تو اللہ اسے ضرور جنت میں داخل فرمائے گا، الا