ترجمہ: وہ اللہ کی محبت میں مسکین ویتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں ۔ یعنی خالص اللہ کی رضا جوئی کے لئے وہ یتیموں کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں ۔
دوسری طرف اللہ کے مجرم اور مستحق عذاب بندوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ:
کلا بل لا تکرمون الیتیم۔ (الفجر: ۱۷)
ترجمہ: بلکہ تم یتیم کی توہین کرتے ہو، عزت نہیں کرتے۔
منکر حق کی پہچان یہ بھی ہے کہ:
یدع الیتیم۔ (الماعون: ۲)
ترجمہ: وہ یتیم کو دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے۔
قرآنِ کریم نے اعمال صالحہ کو ’’عقبہ‘‘ (گھاٹی) سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح گھاٹی دشمن سے بچاؤ کا ذریعہ بنتی ہے، ایسے ہی اعمال صالحہ عذابِ آخرت سے نجات کا باعث ہوتے ہیں ، ان اعمال صالحہ کے ذیل میں یتیم کی ضرویات کی تکمیل اور اس کو کھانا کھلانے کا ذکر بھی ہے۔ (البلد: ۱۵)
مذکورہ آیات میں یتیموں کے اکرام کا اخلاقی وروحانی پہلو نمایاں ہورہا ہے، ان کے علاوہ متعدد آیات ایسی بھی ہیں جن میں ان کے قانونی حقوق کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ فرمایا گیا:
وان تقوموا للیتامیٰ بالقسط۔ (النساء: ۱۲۷)
ترجمہ: یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔
ان الذین یأکلون اموال الیتامیٰ ظلماً انما یأکلون فی بطونہم ناراً وسیصلون سعیراً۔ (النساء: ۱۰)
ترجمہ: جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں ، وہ عنقریب داخل جہنم ہوں گے۔
واٰتوا الیتامیٰ اموالہم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تأکلوا اموالہم الی اموالکم انہ کان حوباً کبیرا۔ (النساء: ۲)