بیچارے، یتیموں یسیروں کو خوش خبری ہو کہ جس نے ساری دنیا کے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا وہ خود بھی یتیم ہی ہوکر دنیا میں آیا، اور یتیمی بھی کس غضب کی؟ عمر کے دس سال پر نہیں ، پانچ سال پر نہیں ، والد کی شکل سرے سے دیکھی ہی نہیں ، اور باپ کی محبت کو ایک لمحے کے لئے بھی جانا ہی نہیں ، جب دنیا میں تشریف لائے تو باپ پہلے ہی واپس بلالئے گئے تھے، رہیں والدہ ماجدہ، سو وہ بھی پانچ سال سے زائد اپنی آنکھوں کے تارے اور عالم کے آفتاب کا نظارہ نہ کرسکیں ، یتیم کا اطلاق تو اس پرہونے لگتا ہے جس کا صرف باپ زندہ نہ ہو، یہاں شروع سے بے پدری، اور شعور پیدا ہوتے ہی بے مادری، ایک ساتھ یتیمی ویسیری، دنیا جہاں کے یتیمو! اپنے حال پر رونے اور کڑھنے کی جگہ خوش اور نازاں ہو کہ تم کس کی صف میں کھڑے ہوئے ہو‘‘۔
(ذکر رسول مردوں کی مسیحائی، از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ ۱۰۱)
قرآن میں اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اس انعام کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو یتیمی کے عالم میں بھی بے آسرا نہ چھوڑا، پناہ دی، چھ سال تک والدہ نے پرورش کی، پھر دادا نے پالا، پھر شفیق چچا نے، پھر ہجرت کے بعد اہل مدینہ نے سر آنکھوں پر بٹھایا، اس نعمت کا شکر اس طرح ادا ہوگا کہ کسی یتیم پر کوئی زیادتی اور حق تلفی نہ ہونے پائے۔
فاما الیتیم فلا تقہر۔ (الضحیٰ: ۹)
ترجمہ: آپ کسی یتیم پر مسلط نہ ہوں ۔ یعنی یتیم کا حق ضائع نہ کریں یہ اللہ کا حکم ہے۔
اس حکم کی روشنی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت یہ بتاتی ہے کہ آپ نے یتیموں کا بے حد اکرام فرمایا، ان کے حقوق خود ادا کئے، اور دوسروں کو بڑا تاکیدی حکم فرمایا۔ قرآنِ کریم میں اللہ کے نیک بندوں (ابرار) کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ:
یطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً ویتیماً واسیراً۔ (الدہر: ۸)