قرار دیا، یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنتی بتایا، اور اس سے حسن سلوک کی پرزور تاکید فرمائی۔ اسی طرح قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا، مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قیدیوں کو رہا کرانے کی کوشش کریں ۔ حضرت ثمامہ بن اثال قیدی تھے، ان کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے خوش اخلاقی کا برتاؤ کیا جائے۔
آپ کی ذاتی زندگی کا شعار زہد، قناعت اور استغناء تھا، آپ شاہانہ زندگی گذارنے پر قدرت کے باوجود فقر وزہد کو ترجیح دیتے تھے، بقدر کفاف روزی پر قانع تھے، اپنا ہر کام بدست خود کرتے تھے، آپ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ کا کرتا کسی یہودی کے پاس گروی رکھا ہوا تھا، آپ نے واضح فرمادیا تھا کہ انبیاء کا مال وراثت میں نہیں بٹتا، وہ صدقہ ہے، جو ضرورت مند مسلمانوں کے کام میں آتا ہے۔
آپ کی شجاعت، دلیری، ثابت قدمی، صبر وشکیبائی، غیرت ایمانی، سخاوت وفیاضی اور جود وکرم کے نمونے سیرت میں محفوظ ہیں ۔ میدانِ جنگ میں آپ کی جنگی حکمت، فوجی صلاحیت، فراست، دور اندیشی اور بصیرت کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے ہزاروں بار کافروں کے ہجوم میں بالکل بے خوف ہوکر حق وتوحید کی صدا بلند کی، اس راہ میں آپ کو بے شمار ایذاؤں اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ پہاڑوں سے زیادہ ثابت قدم رہے۔ طائف میں آپ کو لہولہان کیا گیا، دارالندوہ میں آپ کے قتل کا پروگرام طے ہوا، حالت نماز میں آپ پر اوجھ ڈالی گئی، راستہ چلتے ہوئے آپ پر غلاظت ڈالی گئی، غزوۂ احد میں آپ کے دندانِ مبارک شہید کئے گئے، روئے مبارک کو زخمی کیا گیا، مگر صبر واستقلال کی طاقت سے آپ نے دشمنوں کی ہر تدبیر ناکام بنادی۔
آپ کی زندگی کا ہر پہلو نمونہ ہے، اہل ایمان کے لئے منارۂ نور اور مشعل راہ ہے، اور آپ کے اولادِ آدم کا سردار ہونے کا واضح ثبوت بھی ہے۔ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم۔
،l،